نتنیاہو کی برطرفی پر صیہونی مظاہرین کی تاکید
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتنیاہو کے خلاف ان دنوں وسیع پیمانے پر مخالفت کی جا رہی ہے اور سینکڑوں کی تعداد میں صیہونیوں نے احتجاجی مظاہرہ کر کے بنیامین نتن یاہو کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔
مالی بدعنوانی میں ملوث ہونے کے الزام میں صیہونی وزیر اعظم سے کئی بار تفتیش ہو چکی ہے - حالیہ برسوں میں نتنیاہو کی ناکام کارکردگی اور صہیونی حکومت کے دیگر سربراہوں کی مانند ان کی بدعنوانی کا اسکینڈل، اس غاصب حکومت میں سیاسی ، اقتصادی اور سماجی بحران وجود میں آجانے کا سبب بنا ہے اور مقبوضہ فلسطین کے علاقوں میں اس حکومت کے حکمرانوں کے خلاف صیہونیوں نے وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کئے ہیں- مظاہرہ کرنے والے صیہونیوں نے اسرائیلی وزیر اعظم کے خلاف نعرے لگائے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کئے جانے کا مطالبہ کیا۔
نتن یاہو پر اسرائیل اور ایک جرمن کمپنی کے درمیان آبدوز کی خریداری کے سودے میں رشوت لینے کا الزام ہے- ان پر یہ بھی الزام ہے کہ انھوں نے اخبار یدیعوت احارانوت کے چیف ایڈیٹر ارنون موزس کو مشترکہ مفادات کے سلسلے میں رابطہ برقرار کر کے رشوت دینے کی پیشکش کی تھی اور موزس نے بھی نتنیاہو کے اقتدار میں باقی رہنے کی حمایت کے بدلے میں ایک رقم کی تجویز پیش کی تھی -
یہ احتجاجات ایسی حالت میں ہو رہے ہیں کہ حالیہ مہینوں میں صیہونی حکومت میں باہمی اختلافات اور اقتدار کی جنگ بڑھ گئی ہے- اس مسئلے سے پتہ چلتا ہے کہ اس حکومت میں سیاسی تلاطم کی نئی لہر شروع ہونے والی ہے- اسرائیلی پارلیمنٹ کے بعض اراکین نے نتنیاہو کو اپنی شدید تنقیدوں کا نشانہ بنایا ہے اور ان کو نالائق وزیر اعظم قرار دیا ہے- اس وقت صیہونی حکومت میں اختلافات ، پارٹیوں کے درمیان تنازعے سے بالاتر ہوگئے ہیں اور اب خود پارٹی سطح پر تنازعہ شروع ہو گیا ہے جس کے نتیجے میں اس حکومت کی اصلی پارٹیاں منجملہ بنیامین نتنیاہو کی قیادت والی لیکوڈ پارٹی ماضی سے زیادہ کمزور ہوگئی ہے- نتنیاہو کی برطرفی کے مطالبے کے ساتھ ہی صیہونی حکام کے درمیان لفظی جنگ میں شدت آنے کی بھی خبریں موصول ہو رہی ہیں- بنیامین نتنیاہو کے خلاف بڑھتی ہوئی مخالفت اور ان کے خلاف مختلف اسکینڈل کی تحقیقات کے شواہد وقرائن سے اس امکان کو تقویت حاصل ہوتی ہے کہ نتنیاہو کا اقتدار اب اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے اور ان کی سیاسی زندگی کا خاتمہ ہونے والا ہے-
صیہونی حکومت کو درپیش مختلف بحرانوں سے اس امر کی غمازی ہوتی ہے کہ یہ غاصب حکومت اپنے تاریک مستقبل کی جانب رواں دواں ہے- ایسے حالات میں، اپنے حکمرانوں کے توسط سے پیدا کی ہوئی ابتر اور غیر یقینی کی صورتحال سے ناراض صیہونی باشندے، مختلف طریقوں سے حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں- صیہونی حکومت کے باشندوں کی جانب سے وسیع پیمانے پر ہونے والے احتجاجی مظاہروں سے، اس غیر قانونی اور جعلی حکومت کے اندر پائے جانے والے خلفشار اور گہرے بحرانوں کی عکاسی ہوتی ہے اور اس امرکی نشاندہی ہوتی ہے کہ یہ بحران نہ صرف جلدی ختم ہونے والے نہیں ہیں بلکہ لمحہ بہ لمحہ ان میں وسعت آتی جا رہی ہے - ان حالات کے پیش نظر سیاسی مبصرین ، سال دوہزار سترہ کو صیہونی حکومت میں بحرانوں میں شدت آنے کے سال کا نام دے رہے ہیں-