Apr ۲۷, ۲۰۱۷ ۱۷:۳۲ Asia/Tehran
  • ایران کے خلاف پاکستان کی سرزمین سے دہشت گردانہ اقدامات اور پاکستان کی ذمہ داریاں

اسلامی جمہوریہ ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان کے علاقے میرجاوہ میں سرحدی فورسز کے اہلکاروں پر مسلح جرائم پیشہ دہشت گردوں کے حملے میں ایران کی سرحدی فورسز کے 10 اہلکار شہید اور1 زخمی ہو گیا جس کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔

سرحدی فورسز کے یہ اہلکار معمول کی گشت پر تھے کہ اس دوران مسلح جرائم پیشہ دہشت گردوں  نے ان پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں دس اہلکار شہید ہوگئے - جیش‌الظلم نامی دہشت گرد تکفیری گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی پولیس کے ترجمان سعید منتظرالمہدی کا کہنا ہے کہ ایران کی سیکورٹی فورسز پر یہ فائرنگ، پاکستان کی سرزمین سے کی گئی اور اس حملے کی ذمہ داری بھی پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔ زاہدان کے پبلک پراسیکوٹر نے بھی سرحدی فورسیز کے دس اہلکاروں کی شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ زخمی اہلکار کی حالت بھی نازک ہے-  گزشتہ چند سال کے دوران دہشت گردوں، شرپسندعناصر اور اسمگلروں کی جانب سے پاکستان کی سر زمین سے ایران میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں میں سرحدی علاقے میں سکیورٹی  فورسز کے کئی اہلکار اور عام شہری شہید ہوئے ہیں-

  ایران کے مشرقی ہمسایہ ملک یعنی افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی کا ماضی کافی پرانا ہے۔ تکفیری نظریات اور انتہا پسندی کی بنیاد پر پروان چڑھنے والے دہشت گرد گروہ جو بسا اوقات اسلامی بنیاد پرستی کے دعوؤں کے ساتھ ظہور میں آئے ہیں، سالہا سال سے افغانستان اور پاکستان کے عوام کا چین و سکون برباد کئے ہوئے ہیں۔ پاکستان، سعودی  عرب کے شاہی دربار سے وابستہ وہابیوں کی وسیع سرگرمیوں کے پیش نظر تکفیری گروہوں کی تربیت اور ٹریننگ کا مرکز بن گیا ہے جو ایک طرف تو پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کئے ہوئے ہیں اور دوسری طرف دیگر ملکوں خصوصا افغانستان حتی اسلامی جمہوریہ ایران کی مشرقی سرحدوں کو اپنے دہشت گردانہ اقدامات کے ذریعے ناامن کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔

سرحدی چوکیوں پر حملوں اور ایرانی سرحدی گارڈز کو شہید کرنے کی کاروائیوں میں ملوث دہشت گرد عناصر کو پاکستان کے اندر ہی ٹریننگ دے کر مسلح کیا جاتا ہے۔ اب تک زیادہ تردہشت گردانہ اقدامات سیستان و بلوچستان کی سرحد پر انجام پائے ہیں اسی لئے گذشتہ چند برسوں کے دوران پاکستانی حکام کے ساتھ ایرانی حکام کی دو جانبہ بات چیت اور مذاکرات کا محور زیادہ تر انہیں مسائل پر استوار رہا ہے۔ اگر اسلام آباد دہشت گردی کی بیخ کنی کے سلسلے میں، کہ جو ایران سمیت پڑوسی ملکوں کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے،  کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھاتا تو اس طرح کی دہشت گردانہ کاروائیوں کا سلسلہ جاری رہے گا-

درحقیقت ان جارحیتوں کے مرتکب ہونے والے عناصر، پاکستان میں مالی اور اسلحہ جاتی مدد سے بہرہ مند ہیں لہذا اگر ان کے خلاف ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا تو اسی طرح وہ اپنی دہشت گردانہ کاروائیاں جاری رکھیں گے- پاکستان کی سرزمین سے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف انجام پانے والی کاروائیوں کا سلسلہ جاری رہنے کے سلسلے میں پاکستان کے سرحدی اور سیکورٹی حکام کا موقف واضح ہونا چاہئے - ان کرائے کے ایجنٹوں میں سامنا کرنے کی جرات بھی نہیں ہے اسی لئے وہ رات کی تاریکی میں گھات لگاکر اپنے مذموم مقاصد کو عملی جامہ پہناتے ہیں- 

سرحدوں پر دہشت گردوں اور شرپسند عناصر کی دہشت گردانہ کاروائیوں کا سلسلہ تھمنے والا نہیں ہے مگر یہ کہ اس کے خلاف مسلسل اور ٹھوس اقدامات انجام دیئے جائیں- گذشتہ برسوں میں رونما ہونے والے واقعات سےاس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کی کوئی حد نہیں ہوتی - اس لئے دہشت گردی کی بیخ کنی کے لئے ٹھوس عزم و ارادے اور نیک نیتی کی ضرورت ہے- دہشت گردانہ کاروائیوں سے مقابلے کی ایک موثر روش ان افراد کی شناخت اور ان کو متعارف کرانا ہے کہ جو دہشت گردوں کے لئے بجٹ مختص کرتے ہیں اور دہشت گرد گروہوں کو ٹریننگ دیتے ہیں تاکہ بدامنی سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے مقاصد حاصل کرسکیں- وہ چیز جو مسلم ہے یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت کی بےعملی اور لیت و لعل کے سبب ، ایران دہشت گردانہ کاروائیوں کا نشانہ بن رہا ہے اور اسلام آباد کو اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کو قبول کرنا چاہئے-      

ٹیگس