روسی صدر پوتین کے ساتھ ملاقات میں اسرائیلی وزیر اعظم کی ہرزہ سرائی
صیہونی وزیر اعظم بنیامین نتنیاہو نے ایک بار پھر روسی صدر ولادیمیر پوتین کے ساتھ روس کے شہر سوچی میں ملاقات کے دوران ہرزہ سرائی کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران کو علاقے کے لئے ایک خطرناک ملک بتایا تاہم روس نے اس الزام کو مسترد کر دیا-
اسرائیلی وزیر اعظم نتنیاہو نے بدھ کے روز روسی صدر پوتین کے ساتھ ملاقات میں شام ، یمن اور لبنان میں ایران کے اثر و رسوخ کی بات کی، اور آخرکار انہون نے ان ملکوں میں تہران کے منفی کردار کا الزام لگاتے ہوئے پوتین کو اپنے ہمراہ کرنے کی ناکام کوشش کی لیکن روسی صدر نے ایران کے خلاف نتنیاہو کی باتوں کو سنی ان سنی کردیا-
ایران مخالف نتنیاہو کے الزامات عائد کرنے کے بعد اقوام متحدہ میں روسی نمائندے نے اسرائیلی وزیر اعظم کا ٹھوس جواب دیا- اقوام متحدہ میں روسی نمائندے واسیلی نبنزیا نے نامہ نگاروں کے اجتماع میں پوتین کے ساتھ نتنیاہو کی ملاقات اور اسرائیلی وزیر اعظم کی جانب سے ایران مخالف الزامات کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ شام کے مسائل کے حل میں تہران کا کردار تعمیری ہے اور اس سلسلے میں تہران، ماسکو کے ساتھ اچھا تعاون کر رہا ہے- انہوں نے کہا کہ ہم ایران کے حوالے سے صیہونیوں کے مؤقف سے آگاہ ہیں تاہم ایران، شام کے مسئلے پر سنجیدہ کردار ادا کر رہا ہے.
پوتین سے نتنیاہو کی دوبارہ ہونے والی ملاقات، ایک طرح سے امریکہ کے ساتھ اسرائیل کے کام کی تقسیم ہے تاکہ ایران پر مختلف طریقوں سے مزید دباؤ بڑھایا جائے اور آخرکار اپنے ناقص گمان میں ایران کو علاقے میں ایک بحران پیدا کرنے والا ملک قرار دے دیا جائے- اقوام متحدہ میں امریکی نمائندہ نیکی ہیلی کا بدھ کے روز دورہ ویانا ، اور وہاں مشترکہ جامع ایکشن پلان کے دائرے میں ایران پر دباؤ بڑھانے کے مقصد سے جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے کے ڈائرکٹر جنرل سے ان کی ملاقات اور بیک وقت اسرائیلی وزیر اعظم نتنیاہو کی پوتین کے ساتھ سوچی میں ملاقات ، اس بات کی غماز ہے کہ ان دو ملاقاتوں میں ایرانوفوبیا کی ترویج کے مقصد سے گہرا رابطہ پایا جاتا ہے-
ایران کو خطرہ ظاہر کرنے کی امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ کوشش ایسے میں جاری ہے کہ شام میں ایران اور روس کے اسٹریٹیجک تعاون نے اس ملک میں سیاسی اور جنگ کی صورتحال کو تبدیل کردیا ہے اور امریکہ و اسرائیل کے حمایت یافتہ مسلح گروہ اور دہشت گرد عناصر تباہی و بربادی کے دہانے پر ہیں- آستانہ اجلاس وہ پہلا اجلاس ہے جو ایران، روس اور ترکی کی جدت عمل کے ذریعے، یورپی ملکوں کی عدم موجودگی میں اور یا امریکہ کی براہ راست مداخلت کے بغیر انجام پایا-
یہ اجلاس اس بات کا غماز ہے کہ علاقائی توازن کو برقرار رکھنے میں علاقے کے ملکوں کا براہ راست اور فعال کردار ہے- یہ اسٹریٹیجک تعاون شام کے بحران کے حل میں مددگار ثابت ہوگا- یہ امر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ شام میں اسلامی جمہوریہ ایران کا کردار مثبت ہے اور دہشت گردوں سے مقابلے اور شام کے تقریبا سات سالہ بحران کے خاتمے کے سلسلے میں ایران کا سیاسی کردار بھی مثبت اور اہم کردار کا حامل ہے-
ایسے حالات میں اسرائیل کی حکومت ، امریکہ کے ساتھ کام کی مشترکہ تقسیم کے ذریعے شام میں تخریبی کردار ادا کر رہی ہے اور اس غاصب حکومت نے شام کے بحران کے آغاز سے اب تک بارہا ، امریکی ایماء پر شام پر حملہ کیا ہے- اسرائیلی فضائیہ کے سابق کمانڈر جنرل عمیر اشل Amir Eshel نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے گزشتہ پانچ برس کے دوران تقریبا سو مرتبہ شام کے خلاف ہوائی حملے کئے ہیں-
شام پر متعدد بار اسرائیل کے فضائی اور میزائل حملوں اور اسرائیلی اسپتالوں میں زخمی دہشت گردوں کے علاج معالجے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اسرائیل دہشت گردوں کی بامقصد حمایت کر رہا ہے، اور روس شام میں اسرائیل کے تخریبی کردار سے بخوبی آگاہ ہے -
اسی تناظر میں روسی وزارت خارجہ نے گزشتہ اپریل کے مہینے میں، شام میں روسی فوجیوں کے ٹھکانوں کے قریب اسرائیل کے ہوائی حملے کے بعد ، ماسکو میں اسرائیلی سفیر گری کورن کو طلب کرکے تل ابیب کے اس اقدام پر احتجاج کیا تھا-