Sep ۰۸, ۲۰۱۷ ۱۶:۱۱ Asia/Tehran
  • میانمار میں مسلمانوں کی نسل کشی

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ایک بار پھر میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہاہے کہ بہت زیادہ دیر ہونے سے قبل عالمی برادری کو اس سلسلے میں اقدام کرنا چاہئے۔

محمد جواد ظریف نے جمعرات کے دن ٹویٹ کیا کہ عالمی برادری کے پاس اس بات کا کوئی جواز نہیں ہے کہ وہ سب کی آنکھوں کے سامنے روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کئے جانے کی اجازت دے۔

روہنگیا مسلمانوں پر میانمار کے انتہا پسند بدھسٹوں اور فوجیوں کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم اس قدر بہیمانہ ہیں کہ انسانی حقوق کے دعویداروں نے بھی ان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے البتہ ان کی جانب سے عملی طور پر کوئی اقدام نہیں کیا گیا ہے۔ جنہوں نے ماضی میں میانمار کی موجودہ وزیر خارجہ آنگ سان سوچی کو امن کا نوبل انعام دیا تھا وہ آج دیکھ رہے ہیں کہ آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر بامعنی خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ سوچی نے چند روز قبل مسلمانوں کے قتل عام کی نفی کرتے ہوئے صوبۂ راخین میں فوج کے اقدامات کا دفاع کیا۔

روہنگیا مسلمان دنیا کی سب سے مظلوم اقلیت ہیں۔ جب صوبۂ راخین کے حوالے سے منظر عام پر آنے والی تصاویر اور رپورٹوں کا سرسری جائزہ لیا جاتا ہے تو ہر حریت پسند انسان کے ذہن میں سب سے پہلی چیز جو آتی ہے وہ انسانیت پر ظلم اور روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی سے ہی عبارت ہوتی ہے۔ میانمار کے صوبۂ راخین میں مسلمانوں کے سر کاٹے جاتے ہیں، ان کو زندہ جلایا جاتا ہے اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی ہے حالانکہ ان امور کا کسی بھی دین اور آئین کی رو سے  جواز پیش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لیکن عالمی برادری، میانمار کے ہمسایہ ممالک، اقوام متحدہ اور سب سے بڑھ کر اسلامی تعاون تنظیم نے ان امور کو رکوانے کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا ہے جس سے انسانیت کے ختم ہوجانے کی نشاندہی ہوتی ہے۔

روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کو رکوانا کوئی مشکل کام نہیں ہے لیکن چونکہ دنیا میں امن اور سلامتی قائم کرنے اور انسانی حقوق کا تحفظ کرنے والے ادارے سیاست بازی سے کام لیتے ہیں اس لئے یہ ادارے عملی طور  پر بے سود ہوچکے ہیں۔ ان حالات میں میانمار کی فوج روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کا راستہ ہموار پاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آنگ سان سوچی نے بھی مسلمانوں کے قتل عام پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ایسی صورتحال میں انسانی حقوق کا تحفظ کرنے والی تنظیموں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ امن کا نوبل انعام دینے سے پہلے اس انعام کے لئے نامزد افراد کے بارے میں زیادہ سے زیادہ تحقیق کریں گی۔ انسانی حقوق کے دفاع کی دعویدار فرد کی آنکھوں کے سامنے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا ہے کہ انسانی حقوق کی صورتحال کو ایک حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

میانمار میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اقوام متحدہ اور سب سے بڑھ کر اسلامی تعاون تنظیم کو فوری طور پر میدان میں اتر کر صدیوں سے میانمار میں زندگی بسر کرنے والی اقلیت کی نسل کشی کی روک تھام کرنی چاہئے۔  تھائی لینڈ میں ایران کے سابق سفیر محسن پاک آئین نے جمعرات اور جمعے کی درمیانی رات ایران کے ٹی وی چینل دو کو انٹرویو دیتے ہوئے میانمار کے آراکان علاقے میں مسلمانوں کی موجودگی کی تاریخ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان اس علاقے کے اصل باشندے ہیں حتی سنہ انیس سو چھتیس تک آراکان کے باشندوں کی زبان فارسی تھی۔ سنہ انیس سو بیاسی میں میانمار کی حکومت نے ایک قانون منظور کر کے میانمار میں سکونت اختیار کرنے والی ایک سو چوالیس اقوام میں سے ایک سو پنتیس اقوام کو شہریت دی لیکن مسلمانوں کو شہریت نہ دی اور ان کو اس علاقے سے نقل مکانی پر مجبور کیا۔

 

ٹیگس