روہنگیا مسلمانوں کے اخراج پر حکومت ہندوستان کی تاکید
ہندوستان کی وزارت داخلہ نے اس ملک کی سپریم کورٹ کے ذریعے روہنگیا مسلمانوں کی درخواست کا جائزہ لیئے جانے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ روہنگیائی پناہ گزینوں کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق صرف حکومت ہندوستان کو ہے۔
نئی دہلی کی حکومت نے یہ موقف ایسے میں اختیار کیا ہے کہ ہندوستان کی سپریم کورٹ نے روہنگیا کے مسلمانوں کے اخراج کے سلسلے میں فیصلے کو اکیس نومبر تک ملتوی کردیا ہے- یہ ایسے میں ہے کہ اس سے قبل مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ روہنگیا پناہ گزینوں کے معاملے میں کوئی بھی فیصلہ عدالت ہی کرے گی۔ روہنگیا پناہ گزینوں کے معاملے میں مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں 15 صفحات کا حلف نامہ داخل کیا ہے جس میں روہنگیا پناہ گزینوں کے ملک میں آنے اور رہنے کو سلامتی کے لئے سنگین خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ حلف نامہ داخل کئے جانے کے بعد راجناتھ سنگھ نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں کہا تھا کہ روہنگیا معاملے کا فیصلہ عدالت میں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ ہمیں عدالت کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے ۔
ہندوستان کی حکومت کی جانب سے چالیس ہزار روہنگیا مسلمانوں کو ملک سے نکالے جانے فیصلے کے بعد روہنگیا مسلمانوں کے وکیلوں نے ان کا اخراج روکے جانے کے تعلق سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی اور اس طرح وہ نئی دہلی کے اس اقدام کی راہ میں رکاوٹ بن گئے- سپریم کورٹ نے بھی اس درخواست کو قبول کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اس معاملے میں دلائل، جذباتی پہلووں پر نہیں بلکہ قانونی نکات پر مشتمل ہونے چاہئیں اورانسانی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا جائے گا- لیکن ہندوستان کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے، جو ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف اقدامات کرتی رہتی ہے، بارہا ان پر اعتراض کیا ہے-
ہندوستانی حکومت نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ ہندوستان میں مقیم روہنگیا مسلمان ملک کی سیکورٹی کے لئے خطرہ ہیں، دعوی کیا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور دوسرے دہشتگرد گروہ ، روہنگیا مسلمانوں کو اپنے اہداف کو آگے بڑھانے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں- یہ ایسی حالت میں ہے کہ ہندوستان کے بعض غیر سرکاری اداروں نے حکومت کے اس فیصلے پر ردعمل ظاہرکرتے ہوئے سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو ملک سے باہر نہ نکالا جائے۔ روہنگیا مسلمانوں کی قتل و غارت گری اور نسل کشی پر جماعت اسلامی ہند نے اپنی گہری تشویش اور فکر مندی کااظہار کیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس وقت میانمار کے راخین علاقہ میں مقیم روہنگیا مسلمانوں کو انتہائی درجے کی سفاکی اور ظلم و بربریت کا سامنا ہے۔
امیر جماعت اسلامی نے دور جدید کے اس بدترین انسانی المیہ پر اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ، تنظیم اسلامی کانفرنس اور حقوق انسانی کی تنظیموں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ میانمار کی حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنے ہی ملک کے جائز شہریوں پر کئے جا رہے ظلم و تشدد کو فی الفور بند کرے، ان کی شہریت بحال کرے، ان کی نقل و حرکت پر عائد پابندیاں ختم کرے اور ان کی سماجی و معاشی ترقی پر توجہ کرے۔ امیر جماعت نے حکومت ہند کو بھی متوجہ کیا ہے کہ وہ اس انسانی مسئلہ پر حکومت میانمار سے بات کرے اور اس پر دباؤ ڈالے کہ وہ روہنگیائی مسلمانوں کے دستور ی و شہری حقوق کو فی الفور بحال کرے۔
مسلم پولیٹیکل کونسل آف انڈیا کی سربراہ تسنیم کوثر نے بھی کچھ دنوں قبل نئی دہلی میں ارنا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے دور میں کہ جب میانمار کے مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا جا رہا ہے، حکومت ہندوستان کا یہ اقدام حیرت انگیز ہے- انھوں نے روہنگیا پناہ گزینوں کی جانب سے درپیش سیکورٹی خطرات کے سلسلے میں بعض سیکورٹی حکام کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ افراد ہندوستان کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہیں- انھوں نے کہا کہ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے سلسلے میں امریکہ اور مغربی ممالک کی خاموشی نے انسانی حقوق کے سلسلے میں ان کے دعؤوں کے کھوکھلے ہونے کو ثابت کردیا ہے۔
واضح رہے کہ ماہ اگست سے اب تک 90 ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان میانمار کو چھوڑ کر بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں جہاں بے بسی کی زندگی ہی ان کا مقدر بن گئی ہے۔