فرانس ، سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو مزید فروغ دینے کا خواہاں
فرانس کے صدر امانوئل میکرون نے بدھ کو کہا ہے کہ سعودی عرب کو چاہئے کہ وہ مشرق وسطی کے علاقے میں دہشت گرد گروہوں کی مالی حمایت بند کرے۔
میکرون نے کہا پیرس دہشت گرد گروہوں کے ناموں کی ایک فہرست سعودی حکام کو پیش کرے گا تاکہ ریاض ان کی مالی حمایت منقطع کردے۔ سعودی عرب کے سلسلے میں فرانس کے صدرکے موقف نے ایک بار پھر پیرس کی متضاد پالیسیوں سے پردہ اٹھادیا ہے اب یہ پالیسیاں، خواہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں ہوں یا دہشت گردی کے خلاف دوہرا معیار اپنائے جانے سے متعلق ہوں-
سعودی عرب کے ساتھ فرانس کے تعلقات بہت وسیع ہیں اور ساتھ ہی وہ ان تعلقات کو مزید گہرا اور اسے فروغ دینا چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی میکرون نے خود اعتراف کیا ہے کہ سعودی حکومت دہشت گرد گروہوں کی مالی مدد کرتا ہے اور اس سے دہشت گردوں کے لئے امداد منقطع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے باوجود کہا جا سکتا ہے کہ ریاض کے سلسلے میں فرانس کے صدر کا تنقیدی موقف محض عوام کو دھوکے میں رکھنے کے مقصد سے ہے۔ فرانس کے بین الاقوامی تعلقات انسٹی ٹیوٹ کے ماہر " لورانس ناردو" کے بقول اس وقت دنیا کو جس دہشت گردی کا سامنا ہے وہ ایران کی حمایت کے تحت نہیں ہے بلکہ زیادہ تر خلیج فارس کے ملکوں کے بادشاہوں کی زیر حمایت ہے۔
اس وقت سوال یہ ہے کہ اگر پیرس خود کو دہشت گردانہ حملوں کی بھینٹ چڑھنے والا ملک سمجھتا ہے اور اسی سبب سے اس نے نام نہاد داعش مخالف اتحاد کی صورت میں پیرس میں دو ہزار سولہ میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے بہانے سے دہشت گردی مخالف کاروائیاں شروع کی ہیں تو پھر کس طرح، اس کے ایک ایسے ملک کے ساتھ قریبی روابط ہیں جودہشت گردوں کی حمایت کر رہا ہے؟ اس سوال کا جواب سعودی عرب کے ساتھ فرانس کے مفادات سے سرشار تعلقات کے دائرے میں تلاش کرنا چاہئے۔ پیرس نے، مشرق وسطی کےمختلف مسائل کے سلسلے میں ہمیشہ ریاض کے مواقف کی ہی حمایت کی ہے۔ اس مسئلے کی وجہ بھی واضح ہے- اس امر کے پیش نظر کہ سعودی عرب دنیا میں سب سے زیادہ تیل صادر کرنے والا ملک ہے اور دنیا میں وہ سب سے زیادہ ہتھیاروں کی خریداری کرنے والا بھی ملک ہے۔ اس لئے فرانسیسی حکام نے ہمیشہ سعودی عرب کے اپنے دوروں میں اس بات کی کوشش کی ہے کہ ریاض کے مواقف اور نظریوں سے خود کو قریب ظاہر کرنے کے ساتھ ہی اس کے ساتھ منافع بخش تجارتی، اقتصادی اور فوجی معاہدوں کے حالات فراہم کریں۔
امانوئل میکرون نے اپنے حالیہ دورہ ریاض میں بھی ایران کے میزائل اور سعودی عرب پر یمن کے میزائل حملے کے بارے میں بات چیت کی اور علاقائی کشیدگی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ فرانسیی حکام کو توقع ہے کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ منافع بخش صنعتی و فوجی معاہدوں کے ذریعے فرانس کی معیشت کو مستحکم اور بے روزگاری میں کمی لانے میں مدد کرسکتے ہیں۔ در حقیقت الیزہ پیلس کے حکام کو مشرق وسطی خاص طور پر شام اور عراق جیسے ملکوں میں دہشت گردی کو فروغ دینے میں سعودی حکومت کے تخریبی کردار کا بخوبی اندازہ ہے اور اصولی طور پر فرانس خود ان دہشت گرد گروہوں کا حامی رہا ہے۔ درحقیقت دہشت گردی کے فروغ کی ایک وجہ مغربی ممالک منمجلہ فرانس کے دوہرے معیارات ہیں۔ فرانسیسی حکام اور ان کے عرب اتحادی خاص طور پر سعودی عرب نے اپنے مد نظر اہداف کو حاصل کرنے کے لئےتکفیری دہشت گردوں سےمقابلہ کرنے کے بجائے دہشت گرد گروہوں کی مدد و حمایت کی ہے۔
مغرب بالخصوص فرانس نے، سعودی عرب کے ساتھ مفاد پرستانہ اقتصادی تعاون کے سایے میں اس ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو نظرانداز کر دیا ہے اور سعودی عرب کے پیٹروڈالراس بات کا باعث بنے ہیں کہ مغرب کے لئے اقتصادی مفادات، انسانی حقوق کے مفادات سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں- فرانس سمیت مختلف مغربی ممالک، سعودی عرب کو فوجی ساز و سامان سمیت اپنی مصنوعات کے لئے ایک منڈی سمجھتے ہیں اور اس عرب ملک کو سالانہ اربوں ڈالر مالیت کے اسلحوں کی فروخت، دو طرفہ لین دین کی بنیاد ہے- سعودی عرب کے سلسلے میں مغرب کے رویے سے پتہ چلتا ہے کہ انسانی حقوق کی پیمائش، دوسرے ممالک کے سلسلے میں انسانی حقوق کے نام نہاد دعوے دار ممالک کی پالیسی اور موقف اختیار کرنے کا حربہ بن چکی ہے۔