Dec ۰۸, ۲۰۱۷ ۱۸:۴۲ Asia/Tehran
  • ٹرمپ اور نیتن یاہو کی جنگ افروزی کے مقابلے میں نئي تحریک انتفاضہ کا آغاز

اسلامی ممالک میں نماز جمعہ کے بعد امریکہ اور اسرائیل کے خلاف شدید احتجاجی مظاہروں کے ساتھ ہی فلسطینیوں کی نئی تحریک انتفاضہ کی حمایت کا اعلان کیا گیا-

فلسطینی استقامتی گروہوں نے امریکی صدر کے غیرذمہ دارانہ اور یکطرفہ فیصلے پر ردعمل میں اعلان کیا ہے کہ ٹرمپ کے فیصلے نے تمام ریڈلائنوں کو پامال کردیا اور ان کا فیصلہ فلسطینیوں کے خلاف اعلان جنگ کے مترادف ہے اور اس کے خلاف ایک نئی تحریک انتفاضہ کی ضرورت ہے-

ٹرمپ نے ایسا فیصلہ کیا ہے جو مشرق وسطی کو نئی جنگ میں دھکیل دے گا۔ ایک ایسی جنگ جو مشرق وسطی کے حالیہ سات برسوں کے برخلاف، تہذیبوں کی داخلی جنگ نہیں بلکہ اس کا ایک پایہ اسرائیل ہوگا-

 امریکی صدر ٹرمپ کا فیصلہ نہ صرف جیسا کہ تحریک حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعییل ہنیہ نے بھی اعلان کیا ہے ، نئی تحریک انتفاضہ کے آغاز پر منتج ہوگا بلکہ اس سے عالم اسلام میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑگئی ہے- مسلمانوں کے درمیان بیت المقدس کی مذہبی اہمیت ، شناخت اور اس کے قبلہ اول ہونے  کے پیش نظر چوتھی تحریک انتفاضہ میں فلسطین تنہا نہیں ہوگا- درحقیقت تیسری تحریک انتفاضہ کہ جو آٹھ دسمبر سے شروع ہوئی پہلی اکتوبر دوہزار پندرہ میں شروع ہونے والی انتفاضہ سے جو اب بھی جاری ہے اس لحاظ سے مختلف اور ممتاز ہے کہ چوتھی تحریک انتفاضہ پوری طرح اسرائیل مخالف عالمی ماحول میں شروع ہو رہی ہے اور عالم اسلام میں اس انتفاضہ کی حمایت کے سلسلے میں اتفاق نظر پایا جاتا ہے-

اسی درمیان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو ا سرائیل کے دارلحکومت کے طور پر اعلان کئے جانے کے بارے میں ایسے عالم میں اجلاس طلب کیا ہے کہ امریکہ کے سوا سلامتی کونسل کے تمام مستقل اراکین نے کھل کر ٹرمپ کے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے- ملت فلسطین کے حقوق سے متعلق ایک کمیٹی نے  بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خصوصی اجلاس بلا کر امریکی صدر کے فیصلے  کی مخالفت کا اعلان کیا ہے- علاقائی سطح پر بھی مختلف اسلامی ملکوں میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کے ساتھ ہی تیونس کی پارلیمنٹ نے امریکہ مخالف قرارداد پاس کی اور اسلامی تعاون تنظیم نے بھی  فلسطین اور بیت المقدس کی حمایت میں تیرہ دسمبر کو ایک اجلاس طلب کیا ہے - ان اقدامات اور ردعمل سے پتہ چلتا ہے کہ بیت المقدس اسرائیل کے لئے لقمہ تر نہیں ہوگا حتی اگر امریکہ اور بعض غلام ذہنیت کے حامل عرب حکام  اس کی حمایت بھی کریں -

فلسطینیوں کے لئے  بیت المقدس کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ گذشتہ تینوں انتفاضہ کہ جو قدس کے دفاع کی غرض سے شروع ہوئی تھیں ان میں اور اس تیسری تحریک انتفاضہ میں یہ فرق ہے کہ بیت المقدس کے بارے میں اسرائیل کے دعؤوں کے باوجود بیت المقدس اب تک ایک مقبوضہ مقام تسلیم کیا جاتا تھا لیکن نئی انتفاضہ اس وجہ سے شروع ہوئی ہے کہ امریکی فیصلے سے بیت المقدس عملی طور پر فلسطین سے جدا ہوجائے گا- امریکہ نے قدس کے بارے میں اسرائیل کی حمایت میں جو فیصلہ کیا ہے اس نے صیہونیزم اور اسلام کے دو قطب کو نمایاں و شدید اورمشرق وسطی میں اس غاصب و فرضی حکومت کی تباہی ونابودی کا عمل تیز کردیا ہے-

ٹیگس