یمن سے سعودی عرب پر میزائل کے حملے اور جارح آل سعود کی بوکھلاہٹ
سعودی کونسل برائے سیاسی و سیکورٹی امور نے ملک کے جنوب میں واقع ایک فوجی بیس کیمپ پر یمنیوں کی جانب سے میزائل داغے جانےکے فورا بعد سعودی ولیعہد کی صدارت میں ہنگامی اجلاس طلب کرلیا۔
یمن کی تحریک انصاراللہ کی جانب سے جمعے کو سعودی عرب کے جنوبی علاقے نجران میں واقع فوجی بیس کیمپ پر، کم دوری تک مار کرنے والے ایک بیلسٹک میزائل داغنے کے فورا بعد گذشتہ رات محمد بن سلمان کی صدارت میں ہنگامی اجلاس طلب کرلیا گیا۔ تحریک انصاراللہ کی میزائل طاقت سے سعودی حکومت میں پائے جانے والے خوف وہراس کے باعث ، اس ملک کی سیاسی و سیکورٹی امور کی کونسل نے ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا جس میں ملک بعض سیاسی و سیکورٹی مسائل نیز علاقائی و بین الاقوامی مسائل کا بھی جائزہ لیا گیا۔
یمن کیخلاف سعودی اتحاد کے ترجمان ترکی المالکی نے یمن کی جانب سے نجران علاقے پر ایک میزائل داغے جانے کی خبر دی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ اس میزائل کو ہدف تک پہنچنے سے قبل امریکی دفاعی سسٹم "پیٹریاٹ" کے ذریعے تباہ کردیا گیا۔ جبکہ انصاراللہ یمن کے رہنما علی العمرانی نے اسپوٹنک سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے دو میزائل نجران کے علاقے میں درست نشانے پر جا لگے ہیں۔ العمرانی نے وضاحت کی کہ یمنی فورسز نے سعودی فوجی ٹھکانوں کو نجران اور عسیر کے علاقوں میں مارٹر گولوں اور کاتیوشا میزائلوں سے نشانہ بنایا۔
محمد بن سلمان کی زیر صدارت ہونے والے ہنگامی اجلاس کے تعلق سے موصولہ رپورٹیں اس امر کی غماز ہیں کہ انصاراللہ کی قیادت میں یمن کی عوامی مزاحمت سے پہنچنے والے نقصانات کے بعد آل سعود کی بوکھلاہٹ میں اضافہ ہوگیا ہے۔ تحریک انصاراللہ نے اعلان کیا ہے کہ اس نے سعودی جارح اتحاد کے حملوں کے جواب میں 2017 میں، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے اندر اور مختلف علاقوں میں ان کے فوجی اڈوں پر پینتالیس میزائل داغے ہیں۔ سعودی عرب نے امریکی حمایت میں مارچ 2015 سے یمن کے خلاف جارحانہ حملے جاری رکھتے ہوئے اس ملک کا بری ، بحری اور فضائی محاصرہ کر رکھا ہے ۔ یمن کے خلاف سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے حملوں میں اب تک دسیوں ہزار افراد شہید اور زخمی ہوچکے ہیں اور لاکھوں افراد بے گھر ہوچکےہیں۔
یمن کے خلاف سعودی اتحاد کی جانب سے جاری جارحانہ حملے اور قحط و ویرانی سے لاحق شدید خطرات نے انصاراللہ کو، جارحین کے میزائل حملوں کا جواب دینے پر مجبور کردیا۔ اور اب وہ اس طرح سے مد مقابل آگئے ہیں کہ جس نے یمن کے بارے میں سعودیوں کے سارے تخمینے اور ذہنی تانے بانے بکھیر دیئے ہیں۔ یمن میں سعودی حملوں کے آغاز کے وقت سے بدامنی اورعدم استحکام کی صورتحال جاری ہے لیکن عوامی تحریک انصاراللہ کے توسط سے سعودی اتحاد کے حملوں کےجواب میں سعودی عرب کے دارالحکومت اور متحدہ عرب امارات کو نشانہ بنائے جانے سے اب صورتحال ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔
یمن پر سعودی اتحاد کے بھاری فوجی حملوں نے آخرکار انصاراللہ کو ان جارحین کا جواب دینے پر مجبور کیا ہے اور اس فوجی اسٹریٹیجی نے سعودیوں کو حیرت زدہ کردیا ہے۔ آل سعود تقریبا گذشتہ تین برسوں سے یمن پر حملے کر رہی ہے لیکن اسے نہ صرف اپنے معین شدہ اہداف حاصل نہیں ہوئے ہیں بلکہ یمن کی عوامی رضاکار فورس، سعودی جارحین سے مقابلے کے لئے سعودی عرب کی سرزمین میں گھس گئی ہے اور اس مسئلے نے سعودی عرب کے شہریوں کی سلامتی کو خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ سعودی عرب ایسے میں یمن میں جارحیت کر رہا ہے کہ یمنیوں کی استقامت کے باعث سعودی عرب مکمل شکست کے دہانے پر ہے اور یمن کے مزاحمتی اہلکاروں کے ٹھوس جوابی حملوں نے سعودی حکام کی نیند اڑا دی ہے اور وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے ہیں۔
اس سلسلے میں رای الیوم اخبار کے چیف ایڈیٹر عبدالباری عطوان اپنے اداریے میں لکھتے ہیں کہ تین ہزار سال قبل سے اب تک کوئی بھی فوجی طاقت یا شاہی قوت یمن میں داخل نہیں ہوئی اور اس ملک سے کامیاب ہوکے نہیں نکلی ہے اور سعودی عرب کو بھی یمن کے خلاف کاروائی کرکے کامیابی حاصل نہیں ہوگی- سعودی عرب کو، جس نے چھبیس مارچ دوہزار پندرہ سے یمن کے خلاف جنگ کا آغاز کیا ، یہ توقع تھی کہ وہ اس جنگ کو تیزی کے ساتھ انصاراللہ کو شکست دے کر اور اپنے پٹھو منصور ہادی کو دوبارہ اقتدار میں لاکر اپنی فتح کا اعلان کردے گا لیکن یہ جنگ نہ صرف یہ کہ تھوڑی مدت میں ختم نہیں ہوئی بلکہ طول پکڑتی جا رہی ہے اورعملی طور پر اس جنگ کا نقصان سعودی عرب کو ہوا ہے اور اب اس کی مکمل شکست کے دن قریب ہیں۔