ایران کے مسئلے پر سلامتی کونسل میں ایک بار پھر امریکہ کی رسوائی
ایران کے حالیہ پر تشدد واقعات کے بارے میں امریکی دباؤ میں سکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا جو کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوگیا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین کی اکثریت نے امریکہ کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بین الاقوامی ادارے میں ایران کے حالیہ بلوؤں اور ہنگاموں کا علاقائی اور عالمی سلامتی سے کوئی تعلق نہيں ہے اور اس معاملے پر غور کرنا سلامتی کونسل کے دائرہ کار میں شامل نہیں ہے۔
ایران میں جاری مظاہروں پر اراکین اختلاف رائے کا شکار ہوگئے، اور روس کی جانب سے معاملہ سلامتی کونسل لانے پر امریکا پر شدید تنقید کی اور کہا ایران میں ہونے والے مظاہرے سے عالمی امن اور سلامتی کو خطرہ نہیں۔ روسی نمائندے نے امریکی نمائندے پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد امریکہ میں رونما ہونے والے ہر واقعہ کے بارے میں سکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرنا چاہیے۔ انہوں نے ایران کے داخلی امور میں مداخلت کے لئے امریکہ کی حالیہ کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ میں امریکی نمائندہ نیکی ہیلی کی منطق کی بنیاد پر تو شہر فرگوسن میں احتجاج کرنے والوں پر پولیس کے حملے یا امریکہ میں وال اسٹریٹ کے حامیوں کے ساتھ پولس کے بدترین رویئے کے بعد بھی، سلامتی کونسل میں ایسا ہی اجلاس طلب کرنا چاہئے تھا۔
امریکی حکومت یعنی اس ملک کے صدر ٹرمپ تقریبا ایک ہفتے سے ایران میں ہونے والے فسادات اور بلوؤں کی تشدد آمیز اور بعض جگہ پر تو جارحانہ طریقوں سے نجی اور سرکاری اموال تباہ کرنے کی حمایت کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں بارہا اعلان کیا ہے کہ احتجاج کرنے والوں کو امریکہ کی ہمہ جانبہ حمایت حاصل ہے اور ان کے دعوے کے مطابق دنیا ایران کے واقعات پرنظر رکھے ہوئے ہے۔ اس کے باوجود اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جو واقعہ پیش آیا اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ دنیا، ایران کے اندرونی معاملات میں امریکہ اور اس کے مغربی ایشیاء کے بعض اتحادیوں کی آشکارہ مداخلتوں سے راضی نہیں ہے اور ان کے مداخلت پسندانہ اقدامات کی مذمت کرتی ہے۔
پہلے مرحلے میں تو واشنگٹن اور یورپی ملکوں کے درمیان اختلاف نظر پیدا ہوگیا ہے۔ چنانچہ امریکہ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے سربراہ ریچرڈ ہاس اس سلسلے میں کہتے ہیں ایران کے تعلق سے امریکہ اور یورپ کے درمیان تشویشناک اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ ٹرمپ حکومت کو چاہئے کہ جب تک کہ ایران کی تازہ صورتحال جاری رہتی ہے وہ ایٹمی مسئلے کے بارے میں ابھی کچھ نہ کہے اور ایٹمی معاہدے کے بارے میں دوبارہ مذاکرات کے سلسلے میں کسی بھی اقدام سے پرہیز کرے-
اس اختلاف رائے کی اصل وجہ یہ ہے کہ یورپ امریکہ کے برخلاف ، ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد اور ایران کے ساتھ اپنا تعاون جاری رکھنے پر زور دیتا ہے۔ جبکہ ٹرمپ انتظامیہ اس کوشش میں ہے کہ ایران کے حالیہ واقعات کو بہانہ بناکر ایٹمی معاہدے کو نابود کردے اور ایران میں سیاسی اور فوجی مداخلت کا راستہ ہموار کرے۔ اس کے باوجود جیسا کہ بیت المقدس کو صیہونی حکومت کا دارالحکومت قرار دینے کے ٹرمپ کے متنازعہ بیان کی عالمی سطح پر مخالفت کی گئی، ایران کے بارے میں بھی امریکہ کو ایک اور شکست و ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد اپنے ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ سلامتی کونسل نے اپنے اختیارات ہتھیانے کی کھلی امریکی کوشش کو ناکام بنا دیا جو ٹرمپ انتظامیہ کی ایک اور سیاسی رسوائی ہے۔ ظریف نے کہا کہ سلامتی کونسل کے اکثر رکن ممالک نے ایران کے جوہری معاہدے کے مکمل نفاذ اور دوسروں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خارجہ پالیسی میں ٹرمپ انتظامیہ کو ایک بار پھر شکست ہوئی ہے۔