Jan ۲۴, ۲۰۱۸ ۱۸:۰۱ Asia/Tehran
  • اے بسا آرزو کہ خاک شدہ : صیہونی حکومت کا نوحہ

تحریک حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے فلسطین کو جا بجا کرنے کے کسی بھی منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مصر یا اردن میں فلسطین نامی ملک کی تشکیل نہیں ہوگی - تحریک حماس ، اب تک کئی بار اس منصوبے کو مسترد کر چکی ہے۔

 اسماعلی ہنیہ نے کہا کہ ملت فلسطین کہ جس نے انیس سو پچاس کے عشرے میں صحرائے سینا میں فلسطینیوں کو بسائے جانے کے منصوبے کو ناکام بنا دیا تھا اسی طرح دوسری سازشوں کو بھی ناکام بنا سکتی ہے - بیت المقدس کے خلاف حالیہ فیصلے اور فلسطینی پناہ گزینوں کا مسئلہ، فلسطین کے مسئلے کو پوری طرح مٹانے کے لئے ہے - امریکہ اور اسرائیل کی مفاہمت  سے جو عجولانہ فیصلے کئے جاتے ہیں، مسئلہ فلسطین کے لئے تاریخی خطرہ ہیں- امریکی حکومت کوشش کررہی ہے کہ پورے علاقے کو اسرائیل اور اس کی سیکورٹی کی بھینٹ چڑھا دے- امریکہ ، ساز باز مذاکرات میں غیرجانبدار نہیں ہے - غاصبوں کو فلسطینی قیدیوں کے ساتھ نامناسب رویہ ترک کردینا چاہئے- پناہ گزینوں کو بسانے یا فلسطینیوں کے لئے دوسرے وطن کے تعین کو کہ جو ہر عرب ملک کے نقصان میں ہے ، مسترد کرتے ہیں اور اس سازش کو ناکام بنانے کے لئے اپنے اردنی بھائیوں کے ساتھ ہیں - ہم کسی بھی عرب سرزمین پر فلسطینی مملکت کی  تشکیل کو مسترد کرتے ہیں چاہے وہ مصرمیں ہو یا اردن میں-

گذشتہ سال یہ واقعہ دوسری شکل میں آیا تھا اور اسرائیلیوں کی جانب سے ایسی افواہیں پھیلائی گئی تھیں کہ مصر سے صحرائے سینا کے ایک حصے کو فلسطین سے مختص کئے جانے کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے تاہم اسی زمانے میں مصر کے صدر کے ترجمان علا یوسف نے کھل کر کہا تھا کہ اس مقصد کے لئے فلسطینیوں کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہوئے ہیں اور کوئی جگہ بھی معین نہیں کی گئی ہے اور سینا کے  ایک حصے کو حوالے کر دینے کی تجویز غیرحقیقت پسندانہ ، ناقابل قبول اور ناقابل تصور ہے- سینائے شمالی کے ایک حصے کو حوالے کردینے کی افواہ ایوب کارا نامی صہیونی حکومت کے ایک عہدیدار نے پھیلائی تھی اور اس کا مقصد صیہونی حکومت کی ایک سب سے بڑی اسٹریٹیجی یعنی فلسطینیوں کے لئے کوئی دوسرا وطن بنانے کے منصوبے پر عمل کرنا ہے-

بیت المقدس کو صیہونی حکومت کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کے ٹرمپ کے نامعقول فیصلے بعد اس سال ایک بار پھر یہ فلسطینیوں کو کہیں اور بسانے کی افواہ اور منصوبہ سامنے آیا ہے- اس سے پہلے بارہا فلسطینیوں کے لئے متبادل وطن بنانے کے لئے  اردن کا نام سامنے آرہا تھا لیکن حکومت اردن نے کبھی بھی تسلیم نہیں کیا کہ اس کی زمین کا ایک حصہ فلسطینی حکومت کی تشکیل کے لئے مختص کیا جائے اور اردن ، اس منصوبے کی ہمیشہ سختی سے مخالفت کرتا رہا ہے-

المیادین ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ صیہونی حکومت کو درپیش ایک سب سے بڑا مسئلہ ، زمین نہ ہونا ہے اور اسی مسئلے کی وجہ سے فلسطینیوں کی زمینوں کا ایک بڑا حصہ صیہونی حکومت نے غصب کررکھا ہے اور یہ غاصبانہ قبضہ اب بھی مختلف طریقوں خاص طور سے کالونیوں کی تعمیر اور فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے ہجرت کرنے پر مجبور کرنے کی شکل میں اب بھی جاری ہے-  فلسطینیوں کے لئے متبادل وطن کے منصوبے کا مطلب یہ ہے کہ صیہونی حکومت مقبوضہ زمینوں پر دو دوحکومتوں کی تشکیل کو بھی قبول نہیں کرتی اوراپنا غاصبانہ قبضہ جاری رکھنے پر بضد ہے - یہ پہلی بار نہیں ہے جب صیہونی حکومت اس طرح کی افواہیں پھیلا رہی ہے اور تحریک حماس  کھل کر اس کو مسترد کررہی ہے اور کسی  بھی متبادل سرزمین پر فلسطینی مملکت تشکیل نہیں دی جائے گی-

البتہ صیہونی حکومت نے اپریل دوہزار سولہ میں بھی دعوی کیا تھا کہ مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے فلسطینی انتظامیہ کے سربراہ محمود عباس سے جزیرہ نما سینا میں ایک فلسطینی ملک کی تشکیل کا وعدہ کیا ہے-

اگرچہ فلسطینیوں کے لئے متبادل وطن کا موضوع اسرائیل کی ایک اسٹریٹیجی ہے لیکن اس وقت یہ موضوع ایک بار پھر سامنے آیا ہے کیونکہ شام ، یمن ، عراق اور لیبیا کے مسائل کھڑے ہوجانے کی بنا پر مسئلہ فلسطین پرذرائع ابلاغ اور عالمی رائے عامہ کی توجہ کم ہوگئی اور اسے پس پشت ڈال دیا گیا- البتہ اس نکتے پر بھی تاکید کی جانی چاہئے کہ مسئلہ فلسطین کو سرے سے ختم کرنے کے  لئے صدی کا معاملہ کے عنوان سے جو منصوبہ پیش کیا جا رہا ہے اس میں علاقے اور علاقے سے باہر کے بازیگر اور مشرق وسطی کے مختلف عوامل کارفرما ہیں- یہ وہ سازش ہے جسے امریکہ نے علاقے میں صیہونی حکومت کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے تیار کیا ہے اور سعودی عرب، اردن اور خلیج فارس کی کچھ دیگر عرب حکومتیں اس پر عمل پیرا ہیں- عرب حکومتیں اس سے پہلے فلسطین کے سلسلے میں دشمن کو بڑی بڑی مراعات دیتی رہی  ہیں اور اس کے عوض سازباز مذاکرات کو جاری رکھنے کی بھیک مانگتی رہی ہیں لیکن آج کل صرف تل ابیب کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لئے امریکہ اور صیہونی حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے لئے بیت المقدس جیسے اسٹریٹیجک شہر کو بھی قربان کرنے کے لئے تیار ہیں- صیہونی حکام اور بعض عرب حکومتیں فلسطینیوں سے مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ فلسطین میں خود پر مسلط سیاسی و جنگی صورت حال کو تسلیم کرلیں - یہ کٹھ پتلی عرب حکومتیں اپنے دعوے کے جواز میں کہتی ہیں کہ اگر فلسطینیوں نے استقامت دکھائی تو انھیں مزید قربانیاں دینے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا اور وہ حقائق کو تبدیل نہیں کر سکتے-

ٹیگس