افغانستان کے خلاف بی بی سی چینل کا نیا پروپگنڈہ
افغانستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بی بی سی کی رپورٹ پر، کہ جس میں اس نے گروہ طالبان کے زیر تسلط علاقے کی جغرافیائی پوزیشن اور اس حدود میں بسنے والوں کے بارے میں پروپگنڈہ کیا ہے، ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے مبالغہ آمیز قرار دیا ہے اور کہا ہے گروہ طالبان کے لئے اس طرح کی نئی جغرافیائی حدود قائم کیا جانا صحیح نہیں ہے۔
افغانستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان دولت وزیری نے کہا ہے کہ گروہ طالبان میں، افغانستان میں اس ملک کی دفاعی اور سیکورٹی فورسیز کے ساتھ مقابلے کی طاقت نہیں پائی جاتی، اسی سبب سے یہ گروہ عام شہریوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا رہا ہے-
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی جانب سے جاری کئے جانے والے نقشے میں افغانستان میں طالبان اور داعش کے زیر کنٹرول علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جس کے مطابق صرف 30 فیصد علاقہ افغان حکومت کے مکمل کنٹرول میں ہے۔
رپورٹ کے مطابق 4 فیصد علاقہ ایسا ہے، جو مکمل طور پر طالبان کے زیر اثر ہے، 15 فیصد اضلاع مستقل طور پر طالبان کے حملوں کی زد پر ہیں، 20 فیصد اضلاع کو درمیانے درجے اور 31 فیصد کو کم درجے کے حملوں کی زد میں دکھایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان کے 30 اضلاع میں داعش موجود ہے۔
برطانیہ ایسی حالت میں افغانستان کے بارے میں اپنی مداخلتوں میں اضافہ کر رہا ہے کہ سوسال قبل اسے افغان عوام کے ہاتھوں بھاری شکست اور خفت کا سامنا کرنا پڑا تھا اور وہ مکمل ناکامی کے ساتھ اس ملک سے فرار کر گیا تھا لیکن 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے اور اس پر قبضے کے بعد برطانیہ نے ایک بار پھر موقع غنیمت جانتے ہوئے اپنی فورسیز افغانستان روانہ کردیں اور افغانستان میں منشیات سے نام نہاد مقابلے کے بہانے اپنی مداخلتوں میں اضافہ کردیا۔ گروہ طالبان کے ساتھ موسی قلعہ میں برطانیہ کا معاہدہ اور اس علاقے کو طالبان کو سونپے جانے سے یہ ثابت ہوگیا کہ برطانوی حکومت کا طالبان کے ساتھ دیگر تمام ملکوں سے زیادہ رابطہ قائم ہے اور اس گروہ کی حمایت کر رہا ہے۔
افغانستان کے مسائل میں ماہر ڈاکٹرلطیف نظری کہتے ہیں: افغانستان کے مسائل میں برطانیہ کی مداخلت پاکستان کے فائدے میں ہے۔ یہ ملک طالبان کو استعمال کرنے کے ذریعے اس کوشش میں ہے کہ ایک طرح سے افغانستان پر کنٹرول بنائے رکھے حتی برطانیہ ڈیورنڈ لائن کے مسئلے میں، کہ جو ان دنوں ہمارے اور پاکستانیوں کے درمیان ایک تنازعے میں تبدیل ہوگیا ہے، پاکستان کے حق میں کام کر رہا ہے۔
برطانیہ بی بی سی کے ذریعے طالبان کی حمایت کرکے اور افغان حکومت کو کمزور ظاہر کرکے، سو سال قبل افغان عوام کے ہاتھوں ملنے والی شکست کا انتقام لینے کے درپے ہے۔ کیوں کہ اس ملک کےعوام نے ثابت کردیا ہے کہ وہ اغیار کے سخت مخالف ہیں اور انہیں اپنی سرزمین پر مسلط ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اسی سلسلے میں اس سے قبل بھی بی بی سی نے اپنے، افغانستان کے فارسی صفحے کے نام کو "بی بی سی دری" میں تبدیل کرکے افغانستان میں تفرقہ انگیزی کی ایک اور ٹیکٹک اپنائی تاکہ اس طرح سے لسانی اور ثقافتی اشتراکات میں جدائی ڈالنے کے ذریعے فارسی زبان والوں کی اس زبان سے معنوی و اخلاقی قربت کو بے اعتبار بنا دے۔
افغانستان کی قومی سلامتی کے ادارے کے سابق سربراہ امراللہ صالح کہتے ہیں: پوری دنیا میں فسادات کی آگ بھڑکانے والا بوڑھا استعمار برطانیہ ، افغان عوام کے درمیان تفرقہ و نفاق کے بیج بونے میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکے گا اور میں افغان عوام سے بی بی سی کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کرتا ہوں۔
بہر صورت برطانیہ ، افغانستان پر طالبان کا تسلط قائم کرنے کے لئے، اس ملک کے سیاسی ڈھانچے میں طالبان کی شرکت کے لئے مناسب حالات فراہم کرنے میں کوشاں ہے اور افغانستان میں پاکستان کی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے ساتھ ہی اس ملک میں اپنی پالیسیوں کے نفاذ میں تیزی لائے جانے کے درپے ہے لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ افغان عوام مکمل ہوشیاری کے ساتھ ان سازشوں کا مقابلہ کریں۔