پاکستانی وزیر دفاع کا ہندوستان کو انتباہ
پاکستان کے وزیر دفاع نے اعلان کیا ہے کہ اسلام آباد ، ہندوستان کی جانب سے ہر طرح کے ممکنہ حملے کا ٹھوس جواب دے گا-
پاکستان کے وزیر دفاع خرم دستگیر خان نے منگل کو ایک بیان میں اس بات کا اعلان کرتے ہوئے کہ پاکستانی فوج اور عوام اپنے ملک کی ایک ایک بالشت زمین کا دفاع کریں گے کہا کہ ہندوستان ، پاکستان پر بغیر کسی ثبوت کے دہشت گردانہ حملے کرنے کا الزام لگانے کے بجائے پاکستان کے خلاف اپنے جاسوسوں کی حمایت کا جواب دے - پاکستان کے وزیردفاع کا بیان ، ہندوستانی وزیر دفاع نرملا سیتارمن کے حالیہ بیانات کے جواب سے تعبیر کیا جا رہا ہے کہ جس میں پاکستان کو انتقامی کارروائی کی دھمکی دی گئی تھی-
حکومت ہندوستان کا خیال ہے کہ ہندوستان کے زیرکنٹرول کشمیر میں تشدد اور بدامنی کو پاکستان کے اندر سے کنٹرول اور منظم کیا جاتا ہے اوریہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ پاکستان کو جوابی کارروائی کی دھمکی دیتی ہے- ہندوستان کے زیرکنٹرول کشمیر کی وزیراعلی محبوبہ مفتی سے ملاقات میں ہندوستانی وزیردفاع کے بیانات، اسی تناظر میں قابل غور ہیں یہ ایسی حالت میں ہے کہ حکومت پاکستان، ہندوستان پر بحران کی ذمہ داری سے دامن بچانے کا الزام لگاتی ہے اور اس کا خیال ہے کہ نئی دہلی حکومت، ہندوستان کے زیرکنٹرول کشمیر میں اپنے جرائم سے رائے عامہ کی توجہ ہٹانے کے لئے اسلام آباد پر کشمیر کے امور میں مداخلت کا الزام لگاتی ہے-
کشمیر کے مسائل کے ماہر پرکاش مالک کا کہنا ہے کہ ، محبوبہ مفتی کی زیرقیادت ہندوستان کے زیرکنٹرول کشمیر کی حکومت، پرامن راہ حل کے حصول کے لئے عوام سے گفتگو شروع نہیں کرسکی ہے جبکہ صوبائی حکومت کو کشمیر کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے حمایتی کردار ادا کرنا چاہئے-
انیس سو سینتالیس میں ہندوستان کی آزادی اور تقسیم کے وقت سے ہی کشمیر کی مالکیت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے اور دونوں ملک اب تک دو بار جنگ بھی کرچکے ہیں- اس کے باوجود ہندوستان، بحران کشمیر کے حل کے لئے فوجی راہ حل پر تاکید کرتا ہے اور یہ ایسی حالت میں ہے کہ اس راہ حل کی ناکامی پوری طرح واضح ہے لیکن چونکہ حکومت ہندوستان بحران کشمیر کے حل میں دلچسپی نہیں رکھتی اس لئے بدستور فوجی راہ حل پر تاکید کرتی ہے-
ہندوستان کے صوبہ پنجاب کی پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر رشمنی سودا پوری کا کہنا ہے کہ بحران کشمیر ہندوستان و پاکستان کی تاریخ میں ایک دیرینہ اختلاف ہے اور اس علاقے میں کئی عشروں کی بدامنی سے پتہ چلتا ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لئے عزم کی کمی ہے یہاں تک کہ ان برسوں میں اس سلسلے میں دونوں ملکوں کی جانب سےکافی حمایت نہیں ہوئی ہے-
ان حالات میں صرف اقوام متحدہ ہی کشمیر کے مستقبل کے سلسلے میں اپنی قرارداد پر عمل درآمد کی کوشش کر کے دنیا کے ایک قدیمی ترین بحران کوختم کرسکتی ہے- ایک ایسا بحران کہ جواگر جاری رہا اور ہندوستانی و پاکستانی حکام کے کنٹرول سے نکل گیا تو ایک ایٹمی جنگ پر منتج ہو سکتا ہے کہ جس کی بعض ہندوستانی فوجی حکام نے بھی بات کی ہے- اس حالت میں کشمیر کے امور میں یورپی ممالک کی مداخلت بحران کشمیر کو پہلے سے زیادہ پیچدہ بنا سکتی ہے اور اس صورت میں اس کا حل ناممکن ہوجائے گا-