تجارتی جنگ شروع کرنے کے تعلق سے ٹرمپ کی ہٹ دھرمی
امریکہ کے وزیر تجارت نے کہا ہے کہ اس ملک کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نہیں چاہتے کہ اسٹیل اور ایلومینیم کی درآمد پر ڈیوٹی لگانے کے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔
امریکی وزیر تجارت ویلبر راس نے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے، امریکہ درآمد کی جانے والی اسٹیل اور ایلومینیم پر ڈیوٹی لگانے کے اپنے فیصلے کے بارے میں بہت سے ملکوں سے بات چیت کی ہے لیکن بہرحال وہ اپنے اس موقف سے پیچھے ہٹنا نہیں چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی ٹرمپ نے ایک ٹوئیٹ میں امریکہ میں اسٹیل اور ایلومینیم کی صنعت کو مردہ بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ اب اس میں تبدیلی لانے کا وقت آ پہنچا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ کی جانب سے تبدیلی لائے جانے کے اس فیصلے پر، کہ جس میں انہوں نے امریکہ کو دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ تجارتی معاہدوں میں ہارے ہوئے فریق کا نام دیا ہے، امریکہ کے اندر اور باہر سخت ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ امریکا کے تجارتی سودے اور پالیسیاں احمقانہ ہیں جن کی وجہ سے امریکا کو سالانہ 800 ارب ڈالر تجارتی خسارہ ہو رہا ہے، امریکی اپنی ملازمتیں اور دولت دوسرے ملک کے شہریوں کو دے رہے ہیں اس طرح دوسرے ممالک نے تو امریکا سے فائدے اٹھائے لیکن خود امریکا خسارے میں جا رہا ہے۔ امریکی صدر نے مزید کہا کہ اس پالیسی کی وجہ سے دوسرے ممالک ہم پر ہنستے ہیں کہ امریکی لیڈر کتنے بے وقوف ہیں تاہم اب مزید یہ پالیسی جاری نہیں رکھی جا سکتی، امریکی قیادت اب اپنے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے پالیسی مرتب کرے گی۔ امریکی صدر ٹرمپ اس سے پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ تجارتی جنگیں اچھی ہوتی ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ امریکہ کی وزارت دفاع اور وزارت تجارت نے بھی اسٹیل کی درآمد پر پچیس فیصد اور ایلومینیم کی درآمد پر دس فیصد ڈیوٹی لگانے کی مخالفت کی ہے۔ خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسٹیل کی درآمد پر 25 فیصد اور ایلومینم کی درآمد پر 10 فیصد ڈیوٹی لگانے کے علاوہ یورپی یونین میں بنی ہوئی گاڑیوں پر بھی نیا ٹیکس لگانے کی بات کی ہے۔ ٹرمپ کی کابینہ کے اندر بھی دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان تجارتی جنگ چھڑجانے پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ بعض معروف ریپبلکنز نے بھی اس جنگ کے بدترین نتائج کی بابت خبردار کیا ہے۔
ٹرمپ اپنے ایک اور انتخابی وعدے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ، درآمد شدہ سستے سامانوں پر ڈیوٹی لگانے پر زور دے رہے ہیں۔ اسٹیل اور ایلومینیم کی صنعتوں کو بچانے کے مقصد سے دھات کی صنعت میں سرگرم تقریبا ڈیڑھ لاکھ امریکی مزدوروں کی ٹرمپ حمایت کرنا چاہتے ہیں جبکہ کہا یہ جا رہا ہے کہ امریکی برآمدات پر ڈیوٹی لگانے اور تجارتی جنگ چھڑجانے کے ساتھ ہی امریکہ کے تقریبا پینتالیس لاکھ مزدوروں کا کام، امریکہ کے شراکت دار ملکوں کی جانب سے خطرے میں پڑجائے گا۔
کینیڈا نے دھمکی دی ہے کہ وہ بھی امریکہ سے اسٹیل اور ایلومینیم کی درآمدات پر اسی کی طرح ڈیوٹی لگائے گا اور یورپی ممالک بھی چاہتے ہیں کہ امریکہ سے امپورٹ ہونے والی بعض موٹر سائیکلوں اور جینس کے کپڑوں پر اسی طرح کی ڈیوٹی لگادیں۔ اس کے مقابلے میں ٹرمپ نے بھی دھمکی دی ہے کہ وہ بھی یورپ سےدرآمد ہونے والی گاڑیوں پر ڈیوٹی لگائیں گے۔ ان دھمکیوں پر عملدرآمد ہونے سے لاکھوں مزدور اور صارفین، امریکہ کے اندر اور باہر متاثرہوں گے۔ اسی سبب سے بعض نے ٹرمپ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے، تجارتی جنگ کے آغاز کے اپنے فیصلے کو تبدیل کردیں۔
چین نے بھی امریکا کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر امریکا نے تجارتی جنگ چھیڑی تو چین بھی خاموش نہیں بیٹھے گا۔ بیجنگ میں چین کی قومی پارلیمان نیشنل پیپلز کانگریس کے ترجمان ژانگ ژے سوئی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ اگرچہ چین امریکا کے ساتھ کوئی تجارتی جنگ نہیں چاہتا ہے لیکن اگر امریکا ایسا کوئی قدم اٹھاتا ہے جو چین کے تجارتی مفادات کے لیے نقصان دہ ثابت ہو تو چین بھی خاموشی سے ہاتھ پر ہاتھ رکھے نہیں بیٹھا رہے گا۔
بہر صورت جیسا کہ امریکی وزیر تجارت نے کہا ہے کہ دنیا کے بعض ملکوں کے سربراہوں کے ساتھ بھی ٹرمپ کے مذاکرات، تجارتی جنگ کے نئے دور کے آغاز کی روک تھام میں موثر ثابت نہیں ہوئے ہیں اور اگر یہ جنگ چھڑجاتی ہے تو امریکہ اور دنیا کی معیشت کو بھاری نقصان پہنچے گا۔