Apr ۱۲, ۲۰۱۸ ۱۸:۰۷ Asia/Tehran
  • ٹرمپ عالمی امن کے لئے خطرہ

فوجی طاقت کے استعمال کی امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے بار بار دھمکیوں نے پوری دنیا میں تشویش پیدا کردی ہے۔

شام میں کیمیائی حملوں کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس کو براہِ راست دھمکی دیدی۔ ٹرمپ نے ، کئی ہزار ایٹمی وار ہیڈز رکھنے والے ملک روس کے خلاف اپنے دھمکی آمیز ٹوئٹ میں لکھا کہ " روس نے کہا ہے کہ وہ شام کی جانب داغے جانے والے تمام میزائلوں کو تباہ کردے گا ، تو روس آمادہ ہوجاؤ، کیوں کہ یہ میزائل آر ہے ہیں ، جدیدترین اور اسمارٹ میزائل"- مغربی حکام کا دعوی ہے کہ شام کے شہر مشرقی غوطہ کے علاقے دوما میں کیمیائی بموں کے حملے کے پیچھے شام اور روس کی حکومتوں کا ہاتھ ہے اور اسی سبب سے ان دونوں ملکوں کے خلاف کاروائی ہونی چاہئے۔ گذشتہ چند دنوں میں ڈونلڈ ٹرمپ نے متعدد بار شام اور روس کے خلاف خوفناک فوجی اقدام کی دھمکی دی ہے۔ بلکہ بعض تجزیوں کے مطابق مشرقی غوطہ کے مسئلے میں امریکہ کا فوجی ردعمل ، شام میں روسیوں کے ٹھکانوں کو بھی شامل ہوگا۔ البتہ لبنان میں روسی سفیر نے ٹرمپ کے دھمکی آمیز ٹویئٹ سے قبل خبردار کیا تھا کہ شام میں روسیوں کو نشانہ بنانے کی کسی بھی قسم کی کوشش کا ٹھوس جواب دیا جائے گا - ان پیغامات کے رد وبدل نے شام میں امریکہ اور روس کے درمیان براہ راست فوجی ٹکراؤ کے تعلق سے تشویش پیدا کردی ہے-

البتہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کو ایک بڑی جنگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں- اس سے قبل بھی ٹرمپ نے شمالی کوریا کے مسئلے پر خبردار کیا تھا کہ وہ شمالی کوریا پر ایسا حملہ کریں گے کہ اس جیسا حملہ دنیا کبھی نہ دیکھا ہوگا- ٹرمپ نے شمالی کوریا کے خلاف دھمکی آمیز بیان میں آگ اور غیض و غضب کے الفاظ کا استعمال کیا جو اس ملک کے خلاف ایٹمی حملے کے ان کے فیصلے کا آئینہ دار تھا۔ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دسیوں ملکوں کے سربراہوں اور نمائندوں کے سامنے تقریر کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ایک ممبر ملک کو ایٹمی حملے کی دھمکی دے دی۔ اور یہ ایک ایسا اقدام تھا کہ جس کا ماضی میں کوئی ریکارڈ نہیں ملتا-

اس وقت ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ ایک ملک کے خلاف ٹرمپ کی دھمکیوں کا رخ اس مرتبہ مغربی ایشیاء کی جانب ہے۔ کہا جا رہا ہے یہ دھمکیاں شام کی سرحدوں کو عبور کرجائیں گی اور جنگ کی آگ کے شعلے پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ یہ علاقہ پہلے ہی سے 2001 میں افغانستان پر اور 2003 میں عراق پر امریکی حملوں کے ساتھ ہی، جنگ اور بدامنی کی آگ میں جل رہا ہے، اس درمیان واشنگٹن کی حمایت سے یمن کے خلاف سعودی عرب کے جارحانہ حملوں نے علاقے کے مسائل میں دوچنداں اضافہ کردیا ہے۔ اس بناء پر شام کی جنگ میں امریکہ کی براہ راست شمولیت یا پھر شام میں امریکہ اور روس کے فوجی ٹکراؤ سے یہ آگ  طویل عرصے کے لئے روشن ہوجائے گی-

یہی سبب ہے کہ گذشتہ دنوں میں بہت سی شخصیات نے ڈونلڈ ٹرمپ کی تباہ کن جنگ افروزیوں کے نتائج کے بارے میں خبردار کیا ہے- امریکہ کے سابق صدر جیمی کارٹر نے کہا ہے ٹرمپ کو چاہئے کہ وہ شمالی کوریا، شام یا روس کے ساتھ فوجی مقابلے سے اجتناب کریں اور کسی بھی حالت میں ایٹمی حملے کی بات نہ کہیں۔ روسی پارلیمنٹ دوما کے اسپیکر یویچسلاو ولودین نے بھی کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات دنیا میں خوف و ہراس کا باعث بنے ہیں-

دوسرجانب سینیئر امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس شام میں امریکی فوجی مداخلت میں اضافے کا قانونی اختیار نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ میں امریکی کردار کے تعین کا اختیار کانگریس کے پاس ہے اور اسے اپنے اختیار کو چھیننے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ ریاست یوٹا سے ری پبلکن سینیٹر مائک لی نے بھی کہا ہے کہ شام میں کسی بھی نئے فوجی اقدام سے پہلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کانگریس سے اجازت لینا ہو گی۔ مخالفت کی اس شکل کے علاوہ بھی امریکہ اور یورپ میں شام کے خلاف فوجی حملے کی بنیادی مخالفت کی جا رہی ہے۔

برطانیہ میں بھی ، جو ہر جنگ میں امریکہ کا اہم ترین اتحادی بن جاتا ہے، حزب اختلاف کے رہنما جیرمی کوربن نے صورتحال کو خطرناک قرار دیتے ہوئے شام کے بحران کو سیاسی طریقے سے حل کیے جانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

ٹیگس