صرف موجودہ ایٹمی معاہدہ ہی قبول ہے اور کچھ نہیں: ظریف
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے اپنے ویڈیو پیغام میں جمعرات کو کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے کے حوالے سے صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ امریکہ ایٹمی معاہدے کے تحت تمام وعدوں پر صحیح طور پر عملدرآمد کرے۔
ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ ایران امریکہ کی ہٹ دھرمیوں کے مقابلے میں ڈٹا رہے گا کہا کہ شورو غل مچانے یا دھمکانے سے امریکہ نیا معاہدہ نہیں کرسکے گا- ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران اپنی سلامتی کو نہ ہی غیرملکیوں کے سپرد کرے گا اور نہ ہی اس معاہدے پر کہ جس پر نیک نیتی کے ساتھ عملدر آمد کیا ہے، کوئی مذاکرات کرے گا اور نہ ہی اس میں کسی ترمیم کو قبول کرے گا- ایران کے وزیر خارجہ نے ایک بار پھر خبردار کیا کہ اگر امریکہ ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی انجام دیتا رہا یا اس سے نکلے گا، تو ایران بھی جوابی اقدامات کا حق استعمال کرے گا۔
ایران کے وزیر خارجہ کے ٹھوس موقف نے ایک بار پھر سب پر یہ واضح کردیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ہرگز اپنے بنیادی مفادات کے سلسلے میں پیچھے نہیں ہٹے گا اور دھمکی اور رعب و وحشت پھیلانے کے باعث ایران ، میزائل پروگرام جیسے اسٹریٹیجک مسائل کے بارے میں سازباز نہیں کرے گا- ایٹمی معاہدے کے تعلق سے ڈاکٹر جواد ظریف کے اس پیغام نے، امریکہ کی عہد شکنی اور ایٹمی معاہدے میں باقی رہنے کے لئے ٹرمپ کو راضی کرنے کی یورپی یونین کی کوششوں ، اور ساتھ ہی ایک بار پھر اقوام عالم کے لئے ایران کی نیک نیتی کو واضح کردیا ہے۔ ایٹمی معاہدے کے فریق یورپی ملکوں اور امریکہ نے معاہدے کے وقت اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ کوئی بھی اضافی چیز اس میں شامل نہیں کی جائے گی چنانچہ اس وقت ٹرمپ جو ہنگامہ مچا رہے ہیں، اور ایٹمی معاہدے میں امریکہ کو باقی رکھنے کے سلسلے میں جو کوششیں انجام پا رہی ہیں وہ سب وعدے کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
ایران کے ٹھوس اور واضح موقف کے بعد اب کسی بھی طرح کا شبہ نہیں رہ جاتا کہ کہ ایران اپنے میزائل پروگرام یا مغربی ایشیاء کے علاقے میں اپنے اثر و رسوخ کے تعلق سے امریکہ اور یورپ سے کسی قسم کی بات چیت نہیں کرے گا- اسی سلسلے میں سیاسی مسائل کے ماہر امیر محبیان نے، ایٹمی معاہدے کے بارے میں امریکہ اور یورپی ملکوں کو دیئے گئے جواد ظریف کے ٹھوس پیغام کے بارے میں کہا کہ ایران نے ایٹمی معاہدے کے حوالے سے اپنا صاف و شفاف اور ٹھوس موقف سب پر واضح کردیا ہے اور کسی بھی غیر منطقی مطالبے کی ایران سے امید نہیں رکھنا چاہئے۔
ایٹمی معاہدے پر حکمراں موجودہ صورتحال نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران، بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کے تعلق سے اپنے عہدو پیمان کی پابندی کرنے والا ملک ہے۔ لیکن اس کے بالمقابل اگر امریکہ ایٹمی معاہدے سے نکلتا ہے تو دنیا والوں پر ایک بار پھر ثابت ہوجائے گا کہ واشنگٹن بین الاقوامی معاہدوں کے لئے ہرگز قابل اعتماد شریک نہیں ہے۔
ایران کے میزائل پروگرام اور علاقے میں اس کے اثر و رسوخ کے سلسلے میں ایران پر دباؤ بڑھانے کے لئے ایٹمی معاہدے کے یورپی فریق ملکوں کی ٹرمپ کے ساتھ یکسوئی بھی اس امرکی غماز ہے کہ یورپ کے طاقتور ممالک بھی بدستور امریکہ سے وابستہ ہیں اور وہ مستقل اور آزادانہ طور پر اپنے عزائم کا اظہار نہیں کرسکتے ہیں۔ برطانیہ اور فرانس کے سربراہان مملکت ایسے عالم میں ٹرمپ کو ایٹمی معاہدے میں باقی رکھنے میں کوشاں ہیں کہ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد سے بنیادی طور پر امریکہ ایٹمی معاہدے کا جز نہیں رہ گیا ہے اس لئے کہ اس نے ہمیشہ اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ وہ چیز جس کی ہمیشہ ایٹمی معاہدے کے فریق یورپی ملکوں سے توقع تھی، یہ تھی کہ وہ امریکہ پر ایٹمی معاہدے پر عمل کرنے کے لئے دباؤ ڈالیں گے کہ جس نے ہمیشہ ڈرانے دھمکانے کے ذریعے کوشش کی ہے ایران کے ساتھ مختلف ملکوں کو تجارت سے باز رکھے۔
ایسے حالات میں جواد ظریف کا پیغام ایٹمی معاہدے کے فریق یورپی ممالک اور امریکہ کے لئے ایک ٹھوس انتباہ ہے کہ ایران کسی بھی صورت میں سازباز نہیں کرے گا اور ایٹمی معاہدے میں کوئی نئی چیز شامل کئے جانے کی اجازت نہیں دے گا۔ ایران کے وزیر خارجہ کے موقف نے یہ واضح کردیا ہے کہ تہران ایٹمی معاہدے کے بارے میں ہر قسم کے سناریو کے مقابلے میں آمادہ ہے تاکہ امریکہ اور یورپ کے ساتھ ، ان کے برتاؤ جیسا برتاؤ کرے۔ اس وقت گیند امریکہ اور یورپ کے پالے میں ہے تاکہ 2015 میں اتفاق رائے کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے تعلق سے اپنی نیک نیتی ثابت کریں ورنہ پھر اس کے نتائج کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے اس لئے کہ تہران ایٹمی معاہدے میں کسی بھی تبدیلی کو ہرگز قبول نہیں کرے گا۔
اور جیسا کہ وزیر خارجہ جواد ظریف نے بھی کہا ہے ایٹمی معاہدہ کوئی ایسا معاہدہ نہیں ہے کہ جس کے لئے کسی ایک فریق کی تائید اور دستخط کی ضرورت ہو بلکہ سلامتی کونسل کی توثیق کے بعد تمام فریقوں کے لیے اس پر عملدرآمد کرنا لازمی بن گیا ہے۔