May ۲۳, ۲۰۱۸ ۱۶:۱۹ Asia/Tehran
  • ایٹمی سمجھوتے سے باہر نکلنا، علاقے کے بحران میں شدت کا باعث : اردوغان

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کا باہر نکلنا ناقابل قبول ہے کہا ہے کہ امریکہ کا یہ اقدام مشرق وسطی کے علاقے میں بحران میں شدت کا باعث ہے-

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے انقرہ میں بیرونی ممالک کے سفارتکاروں کی افطار پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی امن کو نقصان پہنچانے والی تخریبی خارجہ پالیسی کی ایک تازہ مثال ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کا باہر نکلنا اور بیت المقدس میں انجام پانے والے اقدامات ہیں-

ترکی کے صدر نے کسی ملک کا نام لئے بغیراشارے کنائے میں امریکی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ابھی حال ہی میں ہم نے بعض مغربی ملکوں کی جانب سے سفارت کاری کہ جسے بحران کے حل کا ذریعہ ہونا چاہئے، کی حیثیت و اعتبار ختم کرتے ہوئے دیکھا ہے-

اردوغان نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ دنیا کو پندرہ ہزار سے زیادہ ایٹمی ہتھیار رکھنے والوں سے زیادہ خطرہ ہے کہا کہ اس صورت حال میں ایٹمی بجلی گھر کے حامل ممالک ان کے لئے کیوں خطرہ شمار ہوتے ہیں؟

ترکی کے صدر نے پرامن ایٹمی اہداف کے لئے ایٹمی انرجی سے استفادہ کرنے والے ممالک کی حمایت پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت انقرہ کی نظر میں ہر ملک کو ایٹمی انرجی سے استفادے کا حق ہے اور جو بھی ممالک اپنی انرجی کی ضرورت اس وسیلے سے پورا کرنا چاہتے ہیں ان کے حق کا احترام کرنا چاہئے-

رجب طیب اردوغان کے بیانات ایک ناقابل انکار حقیقت کی طرف اشارہ ہیں اور گزشتہ دوعشروں کی امریکی پالیسیوں پر نظرڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے تمام اقدامات صرف دنیا میں بحران پیدا کرنے کے لئےانجام پائے ہیں- امریکہ نے گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد سب سے پہلے عراق و افغانستان پر حملے کئے کہ جن حملوں کے باعث مشرق وسطی کے علاقے میں دہشت گردی اور عدم استحکام پیدا ہوا- عراق و افغانستان اب بھی امریکی اقدامات کے نتائج بھگت رہے ہیں-

دوسری جانب امریکہ نے لیبیا پر حملہ کیا جس کے سبب اس ملک کا ڈکٹیٹر معمر قذافی ہلاک ہوا لیکن ساتھ ہی عدم استحام اور دہشت گردی نے اس ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اوریہ صورت حال لیبیا میں اب بھی جاری ہے-

امریکہ کے یہ تمام اقدامات انسان دوستانہ مداخلت کے بہانے انجام پائے اور اس کا نتیجہ شمالی افریقہ اور مغربی ایشیا میں جنگ ، بحران اور انسانی جانوں کے زیاں کی صورت میں سامنے آیا-

اس وقت بھی ٹرمپ کا دعوی ہے کہ وہ ایٹمی سمجھوتے سے نکل کر اور ایران کے علاقائی اثر و نفوذ کے موضوع پر اس ملک پر دباؤ ڈال کر دنیا کو پرامن بنانا چاہتے ہیں - ان کا یہ دعوی ایسی صورت میں سامنے آیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے گزشتہ برسوں میں عراق و شام میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ کی ہے-

مشرق وسطی کے سیاسی امور کی ماہر لینا خطیب بھی اس موضوع پر تاکید کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ عراق و شام میں داعش کے بحران کے آغاز سے ہی اسلامی جمہوریہ ایران نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھاری کردار ادا کیا ہے اور دہشت گردی و انتہاپسندی کے خلاف جد وجہد میں اپنا اور خود سے وابستہ قوتوں کا کلیدی کردار ثابت کردکھایا ہے-

ٹرمپ کا یہ اقدام نہ صرف دنیا کے پرامن ہونے کا باعث نہیں ہوگا بلکہ ان کے اقدامات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اسلامی جمہوریہ ایران کی جدوجہد کے باعث مغربی ایشیا میں اپنے آلہ کار دہشت گردوں کی نابودی پر تشویش میں مبتلا ہیں -

ٹیگس