اسرائیل کے جارحانہ رویوں میں شدت کی وجوہات
اسرائیل نے رواں ہفتے کے دوران کئی مرتبہ غزہ پر حملہ کیا جس کے جواب میں گذشتہ روز فلسطین کے مزاحمتی گروہوں نے اسرائیل کو ٹھوس جواب دیا ہے- فلسطینی گروہوں حماس اور جہاد اسلامی نے صیہونی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ جنگ کے اس کھیل میں اس کو ایک بار پھر شکست کا منہ دیکھنا پڑے گا۔
کل منگل کی صبح سے صیہونی حکومت اور مزاحمتی گروہوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوا۔ اسرائیل کے لڑاکا طیاروں نے غزہ کے مختلف علاقوں میں دس سے زائد مزاحمتی گروہوں کے اڈوں اور اسی طرح بعض رہائشی مکانات پر بھی حملہ کیا- صیہونی حکومت کے جنگی طیاروں نے یہ حملہ ایک ایسے وقت کیا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں مارٹر، میزائل اور راکٹ حملوں کا ذمہ دار حماس اور جہاد اسلامی کو قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ان گروہوں کے ٹھکانوں پر حملے کئے جائیں گے-
فلسطین کے استقامتی گروہوں نے صیہونی حکومت کے میزائل حملوں کے جواب میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران، تقریبا ایک سو تیس راکٹ اور ہینڈ گرینیڈ داغے جو غزہ کی پچاس روزہ جنگ کے بعد سے فلسطینیوں کی طرف سے اب تک کا سب سے بڑا جوابی حملہ تھا- مزاحمتی گروہوں کا یہ ٹھوس ردعمل اس بات کا باعث بنا کہ مصر کی ثالثی سے، بدھ کی صبح سے اسرائیل نے جنگ بندی پر موافقت کرلی- اہم سوال یہ ہے کہ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران غزہ کے خلاف اسرائیل کے جنگی اور جارحانہ رویوں میں تیزی آنے کی وجہ کیا ہے؟
بلاشبہ غزہ کے خلاف اسرائیل کے فوجی حملوں میں تیزی آنے کا اہم ترین عامل، ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیاں ہیں- امریکی صدر ٹرمپ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں سمیت دیگر بین الاقوامی قوانین کی بارہا خلاف ورزی کرکے، اسرائیل کی ہمہ جانبہ حمایت میں مصروف ہیں۔ تل ابیب سے امریکی سفارتخانے کی بیت المقدس منتقلی بھی، ٹرمپ کے غیر ذمہ دارانہ اور غیر قانونی رویوں کی انتہا کو ظاہر کرتے ہیں کہ جو اسرائیل کے تشدد میں اضافے اور جنگی رویوں کی تقویت کا سبب بنے ہیں- عبدالباری عطوان اس سلسلے میں لکھتے ہیں کہ امریکہ میں ٹرمپ کی قیادت کے سائے میں اور اسرائیل کے حامی جان بولٹن، مائک پامپئو اورجمیز میٹس جیسے انتہاپسندوں کی موجودگی نے جنگ کے لئے اسرائیل کی پیاس کو بھڑکا دیا ہے-
اسرائیل نے اس یقین کے ساتھ کہ ٹرمپ ہر حالت میں اسی کی حمایت کریں گے، غزہ کے خلاف ایک بار پھر حملوں کا آغاز کیا ہے تاکہ تشدد اور خوف و ہراس کے ذریعے واپسی مارچ کو ختم کرایا جا سکے۔ درحقیقت تیس مارچ سے واپسی مارچ کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس کے باعث صیہونی حکومت پر غم و غصہ طاری ہے اور اس نے غزہ کے خلاف تازہ حملے شروع کردیئے ہیں-
حماس کے ترجمان عبداللطیف القانوع نے کہا ہے کہ غاصب صیہونی حکام کو جنگ کے اس کھیل میں ایک بار پھر شکست ہو گی- حماس کے ترجمان نے صیہونی حکومت کے ہوائی حملوں کے ردعمل میں کہا کہ غزہ میں استقامتی گروہوں کی خاموشی اور صبر و تحمل کا مطلب ان کی کمزوری نہیں ہے بلکہ یہ فلسطینی عوام کے مفادات کے لئے تھا اور اگر کوئی اس کے برخلاف سمجھتا ہے تو وہ بہت بڑی غلطی کر رہا ہے- حماس کے ترجمان نے کہا کہ فلسطین کا استقامتی محاذ بہت ہی طاقتور ہے اور صیہونی حکومت پر وار کرنے کی پوری طاقت رکھتا ہے- انہوں نے کہا کہ تیس مارچ سے شروع ہونے والا فلسطینیوں کا واپسی مارچ پوری قوت کے ساتھ جاری رہے گا-
فلسطین کی تحریک جہاد اسلامی نے بھی صیہونیوں کے حملوں کے مقابلے میں استقامتی محاذ کی آمادگی پر تاکید کی ہے- جہاد اسلامی فلسطین کے میڈیا سیل کے انچارج داؤد شہاب نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا ہے کہ فلسطینی عوام کا خون ارزاں نہیں ہے کہ دہشت گرد جب چاہیں اسے مباح سمجھ لیں- اسرائیل نے یوم قدس کے قریب آنے کے موقع پر اپنے حملے تیز کردیئے ہیں۔ صیہونی حکوت کی کوشش ہے کہ غزہ کے خلاف تشدد اور فوجی حملوں میں شدت لاتے ہوئے، یوم قدس کی ماہیت اور پیغامات کے تعلق سے اپنے غم و غصے کا اظہار کرے۔
آخر میں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ حالیہ دنوں کے دوران اسرائیل کے حملوں کے خلاف مزاحمتی گروہوں کی استقامت اس بات کا سبب بنی کہ مصر کی تجویز پر اسرائیل نے جنگ بندی کی موافقت کردی۔ اور یہ مسئلہ اس امر کا غماز ہے کہ اسرائیل کے مقابلے میں پسپائی، اس کے حملوں میں تیزی آنے کا سبب، اور اس غاصب حکومت کی جارحیتوں کے مقابلے میں مزاحمتی گروہوں کا ٹھوس اور سخت جواب، اس حکومت کی تشویش اور خوف وہراس میں اضافے اور نتیجے میں حملوں میں کمی آنے کا سبب بنے گا۔