روس اور چین کے سربراہوں کی، ایٹمی معاہدےکی حمایت جاری رہنے پر تاکید
روس اور چین کے سربراہان مملکت نے ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان ہونے والے ایٹمی سمجھوتے کی حمایت جاری رہنے پر تاکید کی ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پوتین اور چینی صدر شی جین پنگ نے جمعے کو بیجنگ میں ایک مشترکہ بیان میں اعلان کیا ہے کہ ماسکو اور بیجنگ ایٹمی معاہدے کی حفاظت اور بقاء کے لئے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لائیں گے- واضح رہے کہ ایران اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین یعنی امریکہ ، فرانس ، برطانیہ ، روس اور چین نیز جرمنی نے جون 2015 میں ایک سمجھوتے پر دستخط کئے تھے اور طے یہ پایا تھا کہ ایران کی ایٹمی سرگرمیاں محدود کرکے، ایٹمی پروگرام سےمتعلق ایران کے خلاف عائد تمام بین الاقوامی اور یکطرفہ پابندیاں ختم کردی جائیں گی۔ اگرچہ امریکہ کی سابق حکومت نے بھی ایٹمی معاہدے کی چنداں پابندی نہیں کی تھی ، تاہم ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کے سلسلے میں امریکہ کی خلاف ورزیاں ، ڈونلڈ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے بہت زیادہ بڑھ گئیں- ٹرمپ نے ایک اقدام کے ذریعے کہ جو ایٹمی معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے ، بارہا دھمکی دی کہ امریکہ اس معاہدے سے نکل جائے گا- اس نے اسی طرح ایران کے ساتھ تجارت کے سبب، یورپی ملکوں کو بھی خبردار کیا اور ایران کے خلاف پابندیوں کی راہ میں عملی طور پر متعدد رکاوٹیں کھڑی کیں- ٹرمپ نے آخرکار آٹھ مئی کو امریکہ کو ایٹمی معاہدے سے نکال لیا اور ایران کے خلاف تمام پابندیاں بلکہ اس سے زیادہ سخت پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دے دی-
ٹرمپ کے اس اقدام کی تین یورپی ملکوں فرانس ، برطانیہ اور جرمنی سمیت چین اور روس نے بھی مخالفت کی اور اس سلسلے میں ماسکو اور بیجنگ نے بارہا ایٹمی معاہدے پر کاربند رہنے کا اعلان کیا ہے اور امریکہ کے بغیر ہی اس معاہدے کے باقی رہنے پر تاکید کی ہے- ان دو ملکوں کے نقطہ نگاہ سے ایٹمی معاہدے کو منسوخ کرنے کے لئے واشنگٹن کے پاس کوئی جواز اور بہانہ نہیں ہے- خاص طور پر ایسے میں کہ جب ایران نے جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے کی گیارہ رپورٹوں کے پیش نظر، ایٹمی معاہدے کے دائرے میں اپنے تمام وعدوں پر مکمل طور پر عمل کیا ہے-
روسی حکام کے نقطہ نگاہ سے ٹرمپ نے ایٹمی معاہدے کے خلاف قدم اٹھاکر یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ عالمی سطح پر ایک ناقابل اعتماد شریک ہے- جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے میں روسی نمائندے میخائیل اولیانوف کہتے ہیں امریکہ نے نہ صرف ایٹمی معاہدے کا احترام نہیں کیا ہے اور اس سے نکل گیا ہے بلکہ اس کی کوشش ہے کہ ایٹمی معاہدے کے دیگر فریق بھی ایٹمی معاہدے کی پابندی نہ کریں-
ماسکو کا کہنا ہے کہ امریکہ اب اپنی پوری کوشش اس میں صرف کر رہا ہے کہ ایٹمی معاہدے کے دیگر فریقوں کو بھی ایٹمی معاہدے سے باہر نکال لے، اور ان ملکوں کے خلاف بھی پابندی عائد کرنے کی دھمکی دے رہا ہے جو ایران کے ساتھ تجارتی و اقتصادی تعلقات رکھتے ہیں یا اس سے تیل خریدتے ہیں- اگرچہ ایران پر امریکہ کا دباؤ بھی ہے اور وہ ایسے حالات بھی پیدا کر رہا ہے تاکہ ایران ایٹمی معاہدے سے نکل جائے اس کے باوجود تہران کے منطقی موقف کو ، ایٹمی معاہدے کے دیگر فریقوں نے بہت زیادہ سراہا ہے اور اس کی تعریف کی ہے۔ اسی سلسلے میں جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے میں روسی نمائندے نے واشنگٹن کے مد مقابل تہران کے متوازن اور عاقلانہ نقطہ نگاہ کی تعریف کی ہے اور سخت ترین حالات کے باوجود تہران کی کوششوں کو سراہا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ ایران کا ایٹمی معاہدہ بدستور عالمی امن و ثبات کے فائدے میں باقی رہے گا۔ چین نے بھی دوسری عالمی معیشت کے عنوان سے کہ جس کے ایران کے ساتھ وسیع پیمانے پر تجارتی اور اقتصادی تعلقات ہیں، روس کی طرح اس نے بھی ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں ٹرمپ کے رویے پر بارہا تنقید کی ہے اور ایٹمی سمجھوتے کے تمام فریقوں سے اس معاہدے کی پابندی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ چین نے اسی طرح امریکی دباؤ کے باوجود ایران کے ساتھ تعاون جاری رکھنے پر تاکید کی ہے- بہرحال روس اور چین کے سربراہان مملکت نے ایک بار پھر ایٹمی معاہدے کی حفاظت اور اس کی بقاء کے تعلق سے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے اور یہ امر بین الاقوامی امن و استحکام میں اضافے کا باعث بنا ہے-