Jun ۱۰, ۲۰۱۸ ۱۶:۳۲ Asia/Tehran
  • گروپ سات کے اجلاس کی ناکامی

کینڈا میں گروپ سات کا دو روزہ اجلاس کافی کشمکش کے بعد ختم ہوگیا تاہم جیسا کہ پیشگوئی کی جا رہی تھی یہ اجلاس اختلافی مسائل پر اتفاق نظر اور اتفاق رائے تک پہنجنے کے لئے دنیا کے سات صنعتی ملکوں کے لئے ایک بڑی ناکامی میں تبدیل ہوگیا ہے-

گروپ سات کا اجلاس شروع سے ہی اس گروپ کے چھے ارکان اور امریکہ کے درمیان ایٹمی سمجھوتے ، کسٹم ڈیوٹی اور پیرس کے ماحولیات سے متعلق معاہدے جیسے موضوعات پرشدید اختلاف کے سایے میں شروع ہوا تھا یہ اختلافات جرمنی ، فرانس ، برطانیہ اور کینیڈا کے سربراہوں اور امریکی صدر ٹرمپ کے درمیان دوجانبہ اور چندجانبہ مذاکرات کے باوجود نہ صرف حل نہیں ہوا بلکہ اس میں موجودہ اختلافات  کا اضافہ بھی گیا ہے اس اجلاس کے شرکاء نے ہرچند شروع میں اختتامی بیان جاری کرنے پراتفاق نہیں کیا تھا تاہم یہ بیان جاری کیا گیا لیکن ٹرمپ نے ایک غیرمتوقع قدم اٹھاتے ہوئے اس مشترکہ بیان کی حمایت واپس لے لی اور امریکہ اور گروپ سات کے اراکین کے درمیان گہرا اختلاف نمایاں کردیا- یوں جس طرح دوہزارسترہ میں اٹلی میں ہونے والے گروپ سات کے اجلاس میں واشنٹگن اور دیگر اراکین کے درمیان پیش آنے والے اختلاف کے بعد بعض تجزیہ نگاروں نے گروپ سات کو گروپ سات کے بجائے گروپ چھے جمع ایک کا نام دیا تھا اسی طرح اس سال کے اجلاس نے ثابت کردیا کہ یہ مسئلہ نعرے سے باہر نکل کر حقیقت کا رخ اختیار کرچکا ہے- اصلی اعتراض جو گروپ سات کے تمام ارکان کررہے ہیں اور جس کی طرف سلامتی کونسل کے سربراہ ڈونالڈ ٹوسک نے بھی اشارہ کیا ہے یہ ہے کہ امریکہ نے قانون پر مبنی بین الاقوامی نظام کو چیلنج کردیا ہے اور اس کے لئے خطرہ بن گیا ہے - دوسرے لفظوں میں واشنگٹن قانون اور عالمی قوانین پر مبنی بین الاقوامی نظام کی حمایت کرنے کے بجائے خود سب سے بڑا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والا بن گیا ہے- اس کی کھلی مثال ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کا باہر نکلنا ہے کہ جو پوری طرح اس معاہدے کے برخلاف ہے جسے سابق حکومت نے تسلیم کیا تھا-

ٹرمپ نے آٹھ مئی کو ایران کے خلاف بے بنیاد الزامات کو دہرا کر ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے باہرنکلنے اور ایران کے خلاف ایٹمی پابندیوں کی بحالی کا آئندہ تین یا چھے مہینے میں اعلان کیا ، یہ ایسا اقدام ہے کہ جس کی بڑے پیمانے پر داخلی اور بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی-

اس سلسلے میں امریکہ کے سابق وزیرخارجہ جان کیری کہ جس نے ایٹمی سمجھوتے میں سب سے زیادہ براہ راست کردار ادا کیا کہتے ہیں کہ : ٹرمپ نے رہبر ایران کی تمام تشویشوں کی تصدیق کردی ، حکومت امریکہ نے غیرتعمیری اور اپنی تخریب کی پالیسی اختیار کررکھی ہے لیکن دوسرا مسئلہ کہ جو ایک جانب یورپ اور کینیڈا کے درمیان دوسری جانب امریکہ اور کینیڈا کے درمیان اختلاف پر منتج ہوا ہے وہ دواسٹریٹیجک سامان اسٹیل اور ایلمونیئم پر بھاری ٹیکس وضع کرنا اور امریکہ برآمد کئے جانے والے دیگر سامانوں پر نئے ٹیکس عائد کرنا ہے کہ جس نے گروپ سات میں واشنگٹن کے شرکاء کو شدید ردعمل ظاہر کرنے پر مجبور کردیا ہے- کینیڈا کے وزیراعظم جاسٹن تھروڈو نے کہ جو گروپ سات کے سربراہی اجلاس کے میزبان بھی تھے امریکی صدر کو خبردار کیا کہ اگر وہ غیرمنصفانہ ٹیکس کا سلسلہ جاری رکھیں گے تو کینیڈا بھی کسی بھی طرح کی پس و پیش کے بغیر امریکہ کے خلاف انتقامی کارروائی کرے گا-

 اس پر ٹرمپ مشتعل ہوگئے اور گروپ سات میں امریکی مندوبین کو گروپ سات کے اختتامی بیان کی حمایت نہ کرنے کا حکم دے دیا- اس طرح ایسا نظر آتا ہے کہ ٹرمپ کا "امریکہ فرسٹ" پر مبنی رویہ مختلف میدانوں میں صرف امریکہ کی مفاد پرستی پر استوار ہے اور وہ دیگر ممالک حتی اپنے شرکاء کے نظریات اور مفادات کو بھی اہمیت نہیں دیتے اور یہ چیز امریکہ کی روز بڑھتی ہوئی تنہائی کا باعث ہوگی اور اس کے ساتھ ہی ایٹمی سمجھوتے سے واشنگٹن کے باہر نکل جانے کے سبب اسے ایک وعدہ خلاف اور ناقابل بھروسہ ملک کے نام سے یاد کیا جارہا ہے-

ٹیگس