Aug ۱۱, ۲۰۱۸ ۱۸:۰۹ Asia/Tehran
  • ایرانی تیل کے بائیکاٹ کے برے اثرات مرتب ہوں گے، آئی اے ای اے کا انتباہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آٹھ مئی 2018 کو ایران کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کرتے ہوئے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے اور آئندہ تین سے چھ ماہ کے اندر ایٹمی پابندیوں کو دوبارہ بحال کرنے اعلان کیا ہے-

ایران کے خلاف امریکی پابندیوں پر سات اگست 2018 سے عملدرآمد شروع ہوگیا ہے جس کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی ہے۔ ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کا دوسرا دور کہ جو تیل کی پابندی سے مربوط ہے، چار نومبر2018 سے شروع ہوگا-

اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ایک بار پھر، دو مرحلے میں پابندیاں عائد کرنے کا امریکا کا مقصد، ایران اور دیگر ملکوں کے درمیان تیل کی فروخت اور کسی بھی قسم کے اقتصادی و تجارتی لین دین پر پابندی لگانا اور آخرکار ایران کی معیشت کو تباہ کرنا ہے۔ درحقیقت امریکہ ایران کے ساتھ وسیع پیمانے پر اقتصادی جنگ کے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔  

اور یہ مسئلہ عالمی سطح پر سخت تشویش کا باعث بنا ہے۔ اور واشنگٹن کے اس اقدام کے سنگین نتائج کے بارے میں بعض عالمی اداروں نے خبردار کیا ہے۔ اسی سلسلے میں جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے نے اپنی تازہ رپورٹ میں تیل کی عالمی سپلائی پر ایران مخالف پابندیوں کے اثرات کی بابت خبردار کیا ہے۔

روئٹرز کے مطابق انرجی کی بین الاقوامی ایجنسی آئی اے ای اے نے اپنی رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ اگر ایرانی تیل پر پابندی لگائی گئی تو عالمی سطح پر تیل کی مانگ اور سپلائی میں بحران آجائے گا۔  توانائی کی عالمی ایجنسی اس سے پہلے بھی خبردار کرچکی ہے کہ  ایرانی تیل پر پابندی لگائی گئی تو عالمی منڈیوں پر اس کے بہت برے اثرات مرتب ہوں گے- آزاد تجزیہ نگاروں کا بھی کہنا ہے کہ تیل پیدا کرنے والے دیگر ممالک عالمی منڈیوں میں ایرانی تیل کی کمی کو پورا کرنے پر قادرنہیں ہیں اور  ایرانی تیل کی سپلائی میں کمی سے بھی عالمی منڈی  کو زبردست دھچکا لگےگا۔

ان انتباہات سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکیوں کا یہ دعوی کہ ایران کے تیل کی فروخت پر پابندی عائد کرنے سے عالمی منڈیوں پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا ، بالکل غلط دعوی ہے۔ درحقیت ٹرمپ حکومت کا یہ خیال ہے کہ اس نے مشرق وسطی کے بعض ملکوں خاص طور پر سعود عرب کے ساتھ جو ہم آہنگی کی ہے اس کے نتیجے میں سعودی عرب اپنے تیل کی پیداوار میں اضافہ کرکے ایران کے تیل کی کمی کو پورا کردے گا- 

سعودی عرب اس وقت  تقریبا ایک کروڑ بیرل یومیہ خام تیل نکال رہا ہے جسے وہ صرف کاغذ پر ایک کروڑ بیس لاکھ تک پہنچانے پر قادر ہے لیکن اس حد تک تیل کی پیداوار میں اضافے کے لئے اسے چھ سے نو مہینے کا وقت درکارہے اور پھر فورا اس کا عملی ہوجانا بھی ممکن نہیں ہے۔ 

ایس این پی گلوبل انسٹی ٹیوٹ کے ماہر گری راس کا بھی خیال ہے کہ یومیہ بارہ ملین بیرل تیل نکالنا ، سعودی عرب کے تیل کے ڈھانچے پر حد سے زیادہ دباؤ بڑھ جانے کے مترادف ہے-بلمبرگ نیوز چینل نے بھی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ جب نومبر کے مہینے میں ایران کے خلاف امریکی پابندیوں پر عملدرآمد شروع ہوگا تو تیل برآمد کرنے والے ممالک ایران کے تیل کے پیداوار کی تلافی نہیں کر پائیں گے۔ 

ایران کے تیل کا مکمل طور پر بائیکاٹ کرنا ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے آسان خواب نہیں ہے اور حتی امریکی صدر کی جانب سے تیل کی مقدار میں اضافے کا سعودی عرب سے مطالبہ اور ایران کے تیل کی جگہ پر کرنا، اس عرب ملک کے لئے فنی اور عملی لحاظ سے بہت مشکل ہوگا- قابل ذکر ہے کہ چین اور ہندوستان جیسے ممالک پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں وہ ایران سے تیل کی خریداری ترک نہیں کریں گے جبکہ یورپی پیکیج میں بھی اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ ایران سے تیل کی خریداری کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ایسی صورت  میں امریکہ کی جانب سے ایران کی آئل ایکسپورٹ روکنے کی پالیسی پہلے ہی ناکام دکھائی دیتی ہے۔ 

واضح رہے کہ ایران کے تیل کے ممکنہ بائیکاٹ پر ایران نے جو ردعمل ظاہر کیا ہے اس سے مغربی ملکوں اور ان کے علاقائی حامیوں میں کھلبلی مچ گئی ہے اور ان کی تشویش بڑھ گئی ہے۔ ایران نے ٹرمپ کے ذریعے تیل کا بائیکاٹ کئے جانے کے خلاف سخت ردعمل ظاہر کیا ہے- اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے اپنے حالیہ دورہ یورپ میں ایران کے تیل کے بائیکاٹ کی کوششوں کے بارے میں امریکہ اور اس کے علاقائی اتحادیوں کو سخت خبردار کرتے ہوئے کہا کہ امریکی یہ دعوی کر رہے ہیں کہ وہ ایران کے تیل کی برآمدات کا مکمل طور پر بائیکاٹ  کردیں گے اور خریداری نہیں ہونے دیں گے۔ ان کو شاید اس کا مطلب معلوم نہیں ہے کیوں کہ یہ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ ایران کا تیل برآمد نہ ہو اور علاقے کا تیل برآمد کیا جائے، اگر تم ایسا کرسکتے ہو تو کرکے دیکھ لینا، تاکہ اس کا نتیجہ بھی تمہار سامنے آجائے۔  

صدر ایران کے اس بیان کی رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای  نے بھی تائید فرمائی اور اکیس جولائی کو آپ نے فرمایا کہ یورپ کے حالیہ دورے میں صدرمملکت کا یہ بیان، کہ اگر ایران کا تیل برآمد نہیں ہوگا تو علاقے میں کسی ملک کا بھی تیل برآمد نہیں ہوگا ، بہت اہم، اور نظام کی پالیسی اورنقطہ نظر کا آئینہ دار ہے- 

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ایران کے خلاف واشنگٹن کی پابندیوں کے نئے دور کا آغاز ایسے میں انجام پا رہا ہے کہ ماضی کے برخلاف امریکہ اس وقت مکمل طور پر تنہا ہوکر رہ گیا ہے اور ایٹمی معاہدے کی ایران کی جانب سے مکمل پابندی کے پیش نظر، دیگر ممالک خاص طور پر فور پلس ون گروپ کے اراکین کو، ایران کے خلاف پابندی میں امریکہ کا ساتھ دینے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ۔ درحقیقت اس وقت دنیا، ٹرمپ کے ایران مخالف اقدامات اور نئی پابندیوں سے مقابلے لئے ایک صف میں کھڑی ہے-   

ٹیگس