جان بولٹن کی ہنگامہ آرائی اور ایران کی ثابت قدمی
امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے اپنے سہ روزہ دورہ اسرائیل کے اختتام پر ایک بار پھر اپنا ایران مخالف موقف دہراتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف دباؤ اور پابندیاں بڑھائی جائیں گی تاکہ تہران کا رویہ بدل جائے۔
وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کے مشیر نے بدھ کو مقبوضہ فلسطین میں امریکی سفارتخانے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ ، ایران پر اقتصادی پابندیوں سے بڑھ کر دیگرمزید پابندیاں بھی عائد کرے گا- بولٹن نے دعوی کیا کہ اتحادیوں کے تعاون سے ایران کے تیل کی برآمدات زیرو تک پہنچا دی جائے گی-
جان بولٹن کہ جو ایران دشمن شخص ہے ایران کے ایٹمی پروگرام، علاقے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی موجودگی اور اثر و رسوخ کا مخالف رہا ہے - امریکہ کے موجودہ صدر ٹرمپ کی سیاسی و سیکورٹی ٹیم ایران سے سب سے زیادہ دشمنی رکھتی ہے اور یہ موضوع ان کے دشمنانہ موقف سے پوری طرح عیاں ہے- ٹرمپ حکومت کا اصلی موقف ایران پر بیش از حد دباؤ ڈالنا اور آخرکار تہران کو واشنگٹن سے مذاکرات پرمائل کرنا ہے اور یہ وہی موضوع ہے جس کی جانب ٹرمپ نے بھی اشارہ کیا ہے تاہم اسلامی انقلاب کی چالیس سالہ تاریخ میں یہ روش کبھی بھی کامیاب نہیں ہوئی ہے-
گزشتہ چالیس برسوں کے دوران امریکہ کی مختلف حکومتوں نے ایران کے خلاف دباؤ ، اقتصادی پابندیوں سے لے کر جنگ اور سازش تک مختلف حربے استعمال کر کے ایران کو خود سے وابستہ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ہر بار ایرانی حکام اور عوام کے اتحاد اور ہوشیاری کے نتیجے میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے تاہم آج ٹرمپ حکومت بھی وہی روش اختیار کئے ہوئے ہے فرق صرف یہ ہے کہ موجودہ امریکی حکام بیش از حد بےشرم اورپست ہیں کہ جو نہایت ڈھٹائی سے اپنی دشمنی و کینے کا اظہار کرتے ہیں اورایران کے خلاف حقیقت کے برخلاف ہرطرح کے الزامات لگاتے ہیں اور پروپیگنڈے کرتے ہیں-
اس سلسلے میں رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حالیہ مہینوں میں امریکی حکام کی بے ادبیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ : وہ (امریکی ) پہلے بھی اپنی باتوں میں سیاسی و سفارتی آداب کا خیال نہیں رکھتے تھے تاہم موجودہ امریکی حکام دنیا کے ساتھ اس طرح پستی، بے ادبی اور بے شرمی سے بات کرتے ہیں کہ گویا ان کے اندر حیا نام کی چیز نہیں ہے- ٹرمپ حکومت، صیہونی و سعودی حکومت کے ساتھ مل کر ایران کے خلاف اقتصادی دباؤ کے ساتھ ہی سیاسی دباؤ بھی بڑھانا چاہتے ہیں تاکہ ایران کا علاقائی رویہ تبدیل ہوجائے- اس سلسلے میں امریکہ ایران پر بے بنیاد الزامات عائد کرتا ہے تاکہ ایران مخالف اپنے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لئے رائے عامہ کو بھی اپنے ساتھ کر لے-
یہ منصوبہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی شام و یمن میں تباہ کن موجودگی اور دہشت گردی کی حمایت پر مشتمل ہے کہ جس سے ان کے گمراہ کرنے کے حربے کا پتہ چلتا ہے- یمن میں ایران کی مداخلت کا الزام ایسے عالم میں لگایا جا رہا ہے کہ سعودی اتحاد، امریکی اشاروں اور اس کے ہتھیاروں سے ہر روز یمنی عوام خاص طور سے بچوں کا قتل عام کررہا ہے - مثال کے طور پر یمن کی اسکول بس پر سعودی اتحاد کی بمباری اور دسیوں بے گناہ بچوں کا قتل عام، امریکی بموں سے ہی کیا گیا ہے- اس ظلم و بربریت سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ پوری ذلت و ڈھٹائی سے جنگ یمن میں سعودی عرب کا ساتھ دے رہا ہے اور ایران کے خلاف بیانات دیتے ہیں اور موقف اختیار کرتا ہے-
تاریخ نے ہمیشہ ہی یہ ثابت کیا ہے کہ امریکی جہاں بھی پہنچے ہیں وہاں انھوں نے تباہی و بربادی مچائی ہے اور ان کی موجودگی سے عدم استحکام پیدا ہوا ہے اور جب وہ باہر نکلے ہیں تو مختلف طرح کے دہشتگرد گروہوں کو تشکیل دے کر باہر نکلے ہیں اور پھر ان کی حمایت کر کے اپنے اہداف کو آگے بڑھایا ہے- اس سلسلے میں انٹرنیشنل ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اسٹیفن والٹ نے امریکی پالیسیوں کی بہت اچھی طرح منظرکشی کرتے ہوئے کہا کہ علاقے میں امریکہ کے نفوذ کا پوری طرح منفی نتیجہ نکلا ہے - داعش کا سامنے آنا اور ہزاروں افراد کا قتل عام عراق میں امریکہ کی دوہزار تین کی جنگ کے نتائج ہیں- اسٹیفن والٹ موجودہ بحران کو دنیا کا سب سے افسوسناک انسانی بحران قرار دیتے ہیں اور اس جنگ میں امریکی حمایت کو بحران پیدا ہونے کا باعث سمجھتے ہیں-