دنیا میں ٹرمپ کی پالیسیاں قانون کی بالا دستی کے لئے خطرہ
اقوام متحدہ میں ایران کے مندوب غلام علی خوشرو نے اختلافات کے حل اور ثالثی کے عمل کے عنوان سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں منعقدہ اجلاس میں کہا کہ اقوام متحدہ کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ دنیا، جبر و زبردستی کے بجائے قانون کی بالادستی کو یقینی بنائے۔
غلام علی خوشرو نے کو اس اجلاس میں کہا کہ امریکہ نہ صرف خود، سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے بلکہ آشکارا طور پردوسروں کو بھی اس ادارے کی ایک قرارداد یعنی بائیس اکتیس کی خلاف ورزی کی دعوت دے رہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اگر کسی نے اس قرارداد پر عمل کیا تو اسے سزا کا سامنا کرنا پڑے گا-
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ، آٹھ مئی 2018 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کو نظرانداز کرتے ہوئے کہ جو ایٹمی معاہدے کی قانونی اور سیاسی حمایت پر مبنی ہے، اس بین الاقوامی معاہدے سے نکل گئے تھے۔ ٹرمپ حکومت نے اس معاہدے سے نکلنے کے ساتھ ہی مختلف طریقوں سے کوشش کی ہے کہ ایٹمی معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر ملکوں کو بھی ایران کے ساتھ اقتصادی تعاون کرنے سے روک دے- اسی سلسلے میں امریکہ کی موجودہ حکومت کے نمائندوں نے دنیا کے مختلف ملکوں کے دورے کئے اور ان کو ڈرایا دھمکایا کہ اگر انہوں نے ایران کے ساتھ تعاون کیا تو انہیں سزا بھگتنا پڑے گی۔ امریکہ کی یہ جارحانہ پالیسی اور رویہ، دنیا میں امن کے لئے خطرہ ہے اور اس صورتحال کا جاری رہنا، دنیا پر حکمراں نظام کے لئے بھی ٹھوس خطرہ ہے۔
اقوام متحدہ میں ایران کے مندوب غلام علی خوشرو نے بھی قرارداد 2231 کو نظرانداز کرنے سے متعلق دوسرے ممالک پر دباؤ ڈالنے پر امریکی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اقوام متحدہ کی اصل بنیاد یہ ہے کہ دنیا کا نظام زور و زبردستی سے نہیں بلکہ قانون کی بالادستی کے ساتھ چلایا جائے-
امریکہ کا ایٹمی معاہدے سے نکل جانا، تباہ کن یکطرفہ پالیسی کی ایک مثال ہے۔ ایران کے ساتھ تعاون کے سبب دنیا کے مختلف ملکوں کو سزا کی دھمکی دینا، یورپ ، چین روس اور ترکی کے ساتھ تجارتی جنگ، اور آخر کار دیگر بین الاقوامی معاہدوں سے امریکہ کا نکل جانا یہ سب امریکی حکومت کی منھ زوری اور ہٹ دھرمی کی علامت ہے کہ جس کے خلاف پوری دنیا کو ایک جیسا اور متحدہ موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔ ٹرمپ حکومت کی جانب سے موجودہ روش کے جاری رہنے سے، اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی ساکھ مزید کمزور ہوجائے گی۔ ٹرمپ کی یکطرفہ پالیسیوں کے مقابلے میں مختلف ملکوں کا موقف اور پالیسی، امریکہ کی یکطرفہ پالیسیوں کو ٹھکرائے جانے کی غماز ہے اور اس طرح کی پالیسی عالمی امن و سلامتی کے فائدے میں ہے۔ عالمی مسائل کے امریکی ماہر اور مصنف دلیپ ہیرو نے حال ہی میں اپنے ایک مضمون میں گلوبل ریسرچ کی ویب سائٹ پر لکھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں اقوام عالم نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ وہ دنیا کو امریکہ اور اس کے صدر کے ہاتھوں کھلونا نہیں بننے دیں گے۔ اس امریکی مصنف نے مزید لکھا ہے کہ تجارت کے سلسلے میں ٹرمپ کی یکطرفہ پالیسیاں، ایران کے ایٹمی معاہدے، اور آب و ہوا کے پیرس معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی ، ٹرمپ مخالف عالمی تحریک وجود میں آنے کا سبب بنی ہے-
بہرحال ٹرمپ حکومت نے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ امریکی دشمنی کا سلسلہ مزید تیز کردیا ہے اور جب بھی ان کو کوئی پلیٹ فارم میسرآتا ہے تو وہ امریکہ کی تباہ کن پالیسیوں کے سلسلے میں جوابدہ ہونے کے بجائے دوسروں کو دنیا کے لئے خطرہ قرار دینا شروع کردیتے ہیں۔ امریکہ نے مشکوک گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد سنہ 2001 سے دہشت گردی کے مقابلے کے نام سے جو اقدامات انجام دئے ہیں اگر ان کا ایک سرسری جائزہ لیا جائے تو اس بات کا واضح طور پر پتہ چل جائے گا کہ حقیقی سرکش اور دنیا کے لئے خطرہ کون ہے؟
ٹرمپ کی منھ زوری کی پالیسیوں کے خلاف عالمی سطح پر ان دنوں جو لہر اٹھی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ عالمی نظام ماضی کی مانند اب صرف امریکہ کے ہاتھ میں نہیں ہے اور دیگر ممالک اس کی چودھراہٹ اور تسلط کو بے چون و چرا قبول نہیں کریں گے۔ قانون کی حاکمیت اور بالا دستی کا احترام اور پرامن راہ و روش کا اپنایا جانا ہی مستقبل میں عالمی امن و سلامتی کے لئے ضمانت ہے۔ اور اگر امریکہ کی جارحانہ پالیسیاں یوں ہی جاری رہیں تو یہ پوری دنیا کے لئے خطرہ بن جائیں گی-