سلامتی کونسل کا اجلاس، ایران کے خلاف ٹرمپ کا تشہیراتی ہتھکنڈہ
اقوام متحدہ میں ایران کے نمائندہ دفتر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ بین الاقوامی قوانین کی سب سے زیادہ خلاف ورزی کرنے والے ملک کی حیثیت سے، سلامتی کونسل کو اپنے یکطرفہ منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لئے بطور ہتھکنڈہ استعمال کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ میں میں ایران کے نمائندہ دفتر نے، اس عالمی ادارے میں امریکی نمائندہ نیکی ہیلی کے اس بیان پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے، کہ سلامتی کونسل کا آئندہ اجلاس ایران کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لئے جانے کی غرض سے تشکیل دیا جا رہا ہے، کہا ہے کہ امریکہ سلامتی کونسل کا دائمی رکن ہونے اور اس کا مرحلہ وار سربراہ ہونے کے ناطے اس عالمی ادارے پر یکطرفہ فیصلہ مسلط کرنے کے درپے ہے اور اس کا یہ اقدام عالمی تعلقات میں طاقت کے استعمال اور رعب و دہشت پھیلانے کے مترادف شمار ہوتا ہے-
سلامتی کونسل کا اجلاس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں چھبیس ستمبر 2018 کو ہونا طے پایا ہے۔ اس پروگرام کی منصوبہ بندی ایسی حالت میں کی گئی ہے کہ جب سے ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں قدم رکھا ہے ، ایران کے خلاف امریکہ کے دشمنانہ رویوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے- امریکی صدر ٹرمپ ہر ہتھکنڈے اور حربے کو بروئے کار لاکر، ایران کو مغربی ایشیا کے علاقے میں بحران اور عدم استحکام کا ذمہ دار ٹہرانے کے درپے ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ ایرانو فوبیا اور ایران سے نفرت پھیلاکر، اپنے اہداف کو آگے بڑھائیں۔ امریکہ کا ایٹمی معاہدے سے یکطرفہ طور پر نکل جانا اور پھر علاقے میں ایران کا رویہ تبدیل کرنے کی کوشش ، ٹرمپ اور اس کے اتحادیوں کی مشترکہ کوشش رہی ہے۔
امریکی حکام اس سلسلے میں کسی بھی اقدام سے دریغ نہیں کر رہے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ جھوٹے اور منفی پروپگنڈے اور اپنی چودھراہٹ کے ذریعے مغربی ایشیا کے علاقے کے اہم مسئلے، یعنی غاصب صیہونی حکومت کے غاصبانہ قبضے کے مسئلے کو پس پشت ڈال ڈیں اور بعض موقع پرست اور سازشی عرب ملکوں کے تعاون سے، اس جعلی اور غاصب حکومت کی سلامتی کو پائیدار اور مستحکم بنائیں۔ امریکی سفارتخانے کی تل ابیب سے بیت المقدس منتقلی اور حال ہی میں فلسطینی پناہ گزینوں کو امداد پہنچانے والی بین الاقوامی تنظیم آنروا کی امداد کا منقطع کیا جانا، سنچری ڈیل کے مذموم منصوبے پرعملدر آمد کے دائرے میں قابل غور ہے اور ٹرمپ کی کوشش ہے کہ اس منصوبے کو خلیج فارس کے بعض عرب ملکوں کے ساتھ مل کر آگے بڑھائے-
اس کے علاوہ ، امریکہ کے ایٹمی معاہدے سے نکل جانے کے بعد ایران کے ساتھ اقتصادی تعاون ختم کرنے کے لئے مختلف ملکوں کو ڈرانا دھمکانا بھی، امریکہ کی یکطرفہ پالیسی اور منھ زوری کی علامت ہے کہ جو عالمی امن و سلامتی کے لئے ٹھوس خطرہ ہے- اسی سلسلے میں اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب غلام علی خوشرو نے بدھ کو امن کی ثقافت کے فروغ کے عنوان سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے مختلف علاقوں بالخصوص مشرق وسطی کے مستقل ممالک کے خلاف فوجی جارحیت، انتہا پسندی، دہشت گردی اور اندرونی معاملات میں مداخلت میں اضافہ، امریکہ کی جارحانہ اور یکطرفہ پالیسی کے منفی اثرات کا نتیجہ ہے۔
ایران مخالف دباؤ میں شدت لانے کی ٹرمپ کی ہمہ جانبہ کوشش، ایران کے ساتھ امریکہ کی کھلی دشمنی کی علامت ہے کہ جس نے امریکہ کی تخریبی پالیسیوں کو مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ ایران کئی ہزار سالہ ثفافتی اور تاریخی تمدن کا حامل ملک ہے جو دنیا میں ایک امن پسند ملک جانا جاتا ہے اور علاقے میں اس کے رویے میں تبدیلی کی کوشش کا مقصد، محض ایران سے دشمنی ہے کہ جو ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے-
13 اگست 2018 کو عوام کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی تھی جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ پہلے بھی امریکا کے لب ولہجے میں سفارتی آداب کا کم ہی لحاظ رکھا جاتا تھا لیکن پچھلے چند مہینے سے وہ سبھی ملکوں کے سلسلے میں بے ادبی اور بے شرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے جس کی ایک مثال یمن کے اسکولی بچوں کی بس اور اسپتال پر سعودی عرب کے حملے کے تعلق سے اس کے موقف کی ہے ۔
اس وقت ٹرمپ حکومت گرچہ بھرپور طریقے سے ایران سے دشمنی نکال رہی ہے اور ایران کے داخلی امور میں مداخلت کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران نے گذشتہ چالیس برسوں میں امریکہ کے سامنے پسپائی اختیار نہیں کی ہے اور علاقائی سطح پر دن بہ دن اس کی قوت و اقتدار میں اضافہ ہو رہا ہے- ایران کا یہ اثر و رسوخ اور اقتدار، علاقے اور دنیا میں امن و صلح قائم کرنے کے مقصد سے ہے اور اس دعوے کی حقیقت، دہشت گردی سے حقیقی مقابلے کے لئے ایران کی پالیسیوں اور کوششوں میں نمایاں ہے۔