Oct ۲۰, ۲۰۱۸ ۱۴:۲۰ Asia/Tehran
  • امریکہ پھر تنہا ، یورپ و ایشیا کی جانب سے ایٹمی سمجھوتے کی حمایت کا اعلان

اگرچہ امریکہ ان چھے ملکوں میں شامل تھا کہ جنھوں نے جولائی دوہزار پندرہ میں گروپ پانچ جمع ایک اور ایران کے درمیان ہونے والے ایٹمی سمجھوتے پر دستخط کئے تھے لیکن امریکی صدر ٹرمپ نے ہمیشہ ہی اس سمجھوتے کے خلاف موقف اختیار کیا اور اسے بدترین سمجھوتہ قرار دیتے رہے -

آخرکار امریکہ نے آٹھ مئی دوہزار اٹھارہ کو ایٹمی سمجھوتے سے باہر نکلتے ہوئے اگست اور پھر نومبر دوہزار اٹھارہ سے ایران کے خلاف ایٹمی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا - ٹرمپ کی جانب سے گروپ پانچ جمع ایک کے دیگر اراکین سے اپنے موقف کی پیروی پر اصرار کے باوجود فرانس ، جرمنی اور برطانیہ نے امریکی مطالبات کو نہ صرف تسلیم نہیں کیا بلکہ چین اور روس نے امریکہ کے حریف کی حیثیت سے ٹرمپ کے اس اقدام پرسختی سے تنقید بھی کی اور ایٹمی سمجھوتے کو باقی رکھنے کے خواہاں ہیں -

 اس کے ساتھ ہی عالمی برادری نے بھی یہی راستہ اختیار کیا یعنی امریکہ کی پیروری کرنے سے انکار کردیا - اس سلسلے میں ایشیائی و یورپی ممالک کے سربراہوں نے جمعے کو پیرس اجلاس میں ایٹمی سمجھوتے کی حمایت کا اعلان اور اسے عالمی امن کے  لئے مفید قراردیتے ہوئے ایٹمی سمجھوتے کی پابندی پر تاکید اور اسے مفید و موثر بین الاقوامی سمجھوتہ قرار دیا کہ جس میں اپنے اہداف کے حصول کی صلاحیت موجود ہے-

یورپی حکام کا کہنا ہے کہ ایشیائی حکومتوں نے بھی سیکورٹی وجوہات کی بنا پر ایٹمی سمجھوتے پر عمل درآمد کے سلسلے میں کافی رجحان و دلچسپی کا اظاہر کیا ہے - یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے جمعرات کو ایشیا اور یورپ کے بارہویں اجلاس میں کہا کہ ایٹمی سمجھوتے کو باقی رکھنے کے سلسلے میں ایشیا اور یورپ کا موقف یکساں ہے-

یورپی یونین نے اور ایٹمی سمجھوتے پر دستخط کرنے والے دوسرے ممالک ، ایٹمی سمجھوتے سے یکطرفہ طور پر نکلنے کے سلسلے میں امریکی صدر کے اقدام کی مخالفت اوراسے باقی رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں- اس یورپی ادارے نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ تجارت کرنے والی اپنی کمپنیوں کے لئے حمایتی پیکج مد نظر رکھے ہوئے ہے اور اسی طرح ایران کے ساتھ یورپ کے مالی لین دین کو محفوظ بنانے کے لئے ایس پی وی نامی سسٹم پیش کررہا ہے- 

موگرینی نے اس سے پہلے کہا تھا کہ مخصوص مالی لین دین کا سسٹم نومبر دوہزار اٹھارہ میں کام کرنا شروع کردے گا-

ایٹمی سمجھوتے کی حفاظت کے لئے ایشیاء و یورپ اجلاس کا موقف ، ٹرمپ کی ایٹمی سمجھوتے کے مخالفت و دشمنی کی پالیسی پر ایک اور ضرب شمار ہوتا ہے-

ایشیاء یورپ اجلاس ASEM  کے رکن ممالک اور اداروں کی نظر میں ایٹمی سمجھوتے کے درہم برہم  ہونے اور اس سمجھوتے کے منسوخ ہونے کے عالمی امن و سیکورٹی پر کافی منفی نتائج برآمد ہوں گے- 

 اس کے باوجود اس گروہ کے یورپی اراکین کا خیال ہے کہ ایٹمی سمجھوتے کی منسوخی ، یورپی یونین کی سفارتی حیثیت کو سخت نقصان پہنچائے گی - ان تحفظات کے باعث یورپی یونین کے اعلی حکام منجملہ موگرینی اور بعض یورپی رہنما، ایٹمی سمجھوتے کی افادیت کے پیش نطر اسے برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں-

لہذا واشنگٹن کی دھمکیوں اور نفسیاتی جنگ کے باوجود بریسلز نے ایٹمی سمجھوتے کی حفاظت کے سلسلے میں اپنے اقدامات کو جاری رکھنے پر تاکید کی ہے-

اس وقت یورپی یونین نے آسم کے سربراہی اجلاس کے انعقاد سے پیدا ہونے والے موقع کو ایٹمی سمجھوتے کی حفاظت کے لئے یورپ و ایشیا کے حمایتی موقف کے اعلان کے لئے مناسب سمجھا ہے- مسلمہ امر ہے کہ یہ ٹرمپ حکومت کے لئے ایک بری خبر ہے کہ وہ عالمی مخالفت کی بنا پر ایٹمی سمجھوتے کی مخالفت میں سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل جیسے مشرق وسطی کے اپنے بعض اتحادیوں کے سوا کوئی اور حامی پیدا نہیں کرسکی ہے-

درحقیقت اس گروپ کے رکن ممالک کی تعداد کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایٹمی سمجھوتے کی حفاظت کے سلسلے میں ایک طرح سے عالمی اتفاق رائے پایا جاتا ہے- آسم بین البراعظمی گروپ ، یورپی کمیشن ۔ یورپی یونین کے اٹھائیس رکن ممالک ، آسیان کے بارہ رکن ممالک اور مغولستان، پاکستان، اسٹیرلیا، نیوزی لینڈ ، ہندوستان، بنگلادیش ، قزاقستان ، روس ، ناروے ، سوئزرلینڈ اور کرویشیا پر مشتمل ہے اور اس وقت اس گروپ میں ترپن پارٹنر اور دو بین الاقوامی ادارے بھی اس گروپ میں موجود ہیں-

اس گروپ کے رکن ممالک ، دنیا کی ساٹھ فیصد سے زیادہ آبادی اور تقریبا ساٹھ فیصد جی ڈی پی کے حامل  ہیں-ASEM گروپ کا موقف یہ ہے کہ ایٹمی سمجھوتے سے باہر نکلنے کا ٹرمپ کا موقف اس معاہدے کے برخلاف ہے کہ جو اوباما کے دورحکومت میں امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کے تناظر میں کیا ہے اور اس مسلمہ بین الاقوامی قانون کے بھی منافی ہے کہ جس میں حکومتوں کو معاہدوں عمل کا پابند بنایا گیا ہے- 

 

 

ٹیگس