Oct ۲۴, ۲۰۱۸ ۱۷:۱۸ Asia/Tehran
  • سعودی عرب سے امریکہ کی دوری کی علامات

امریکی وزارت خارجہ نے بارہ سعودی باشندوں کے ویزے منسوخ کئے جانے کا فیصلہ کرکے، سعودی مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے سبب، سعودی عرب کو سزا دینے کی غرض سے پہلا قدم اٹھایا ہے-

ساتھ ہی امریکی وزیر خارجہ مائیک پامپئو نے کہا ہےکہ ممکن ہے کہ سعودی عرب کے سلسلے میں میگنیٹسکی قانون پر عملدرآمد کیا جائے۔ اس قانون پر عملدرآمد کے ساتھ ہی سعودی عرب کے خلاف کچھ پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ الجزیرہ نیوز چینیل کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خاشقجی کی گمشدگی کا بحران شروع ہونے کے بعد سے پہلی بار وال اسٹریٹ جنرل کے ساتھ انٹرویو میں سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان کو اس صحافی کے قتل کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ 

اس سے پہلے بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ وہ جمال خاشقجی قتل کیس کے حوالے سے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی پیش کردہ وضاحتوں سے مطمئن نہیں ہیں۔امریکی صدر نے سعودی حکام کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہ جمال خاشقجی قتل کیس کی تحقیقات میں ایک ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے، کہا کہ ایک ماہ کا عرصہ بہت زیادہ ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ بہت جلد اس کیس کے بارے میں بہت سے مسائل واضح ہو جائیں گے۔ 

گذشتہ چند دنوں کے دوران امریکی حکام کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات اور مواقف کے پیش نظر ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ وائٹ ہاؤس، رائے عامہ کے بھاری دباؤ اور امریکہ کے اندر اور باہر میڈیا اور سیاسی شخصیات کے وسیع ردعمل کے باعث آخرکار اس بات پر مجبور ہوا ہے کہ سعودیوں خاص طور پر سعودی عرب کے جوان ولیعہد سے دوری اختیار کرے۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ خاشقجی قتل کے تعلق سے جواب دہی اور ریاض کے خلاف ممکنہ سزا کے طریقہ کار کا مسئلہ کانگریس کو سونپے گیں۔ گذشتہ برسوں کے دوران سعودیوں کی لابنگ اور لاکھوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود، ان دنوں امریکی کانگریس بھی ریاض کے خلاف سخت تنقیدوں کے مرکز میں تبدیل ہوگئی ہے۔

 تین یورپی ملکوں، فرانس ، جرمنی اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ نے بھی جمال خاشقجی کے قتل کے طریقہ کارکے بارے میں سعودی عرب کی جانب سے پیش کی جانے والی وضاحت کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قتل کی فوری اور درست تفصیلات منظرعام پر لائے جانے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں تمام اقدامات بروئے کار لائے جانے چاہئیں۔

امریکہ کی خارجہ تعلقات کونسل کے چیئرمین رچرڈ ہاس نے  ٹوئٹ کیا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے بارے میں امریکہ کی خارجہ پالیسی میں اصل ترجیح، ہتھیاروں کی سپلائی پر بندش اور جنگ یمن کے خاتمے کے لئے اس تباہ کن جنگ کے بارے میں ٹرمپ حکومت کی پالیسیوں کی شفافیت اورایران کے سلسلے میں سعودی عرب کو جارحانہ رویے سے باز رکھے جانے کو حاصل ہونی چاہئے۔ انھوں نے تاکید کی کہ سعودی عرب کے لئے واشنگٹن کی حمایت کے تناظر میں کلین چٹ کا دور اب ختم ہوجانا چاہئے۔ اس لئے کہ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان نے خود کو زیادہ ہی بڑھا چڑھا کرپیش کیا ہے چہ جائیکہ وہ کسی حمایت کے مستحق قرار پائیں۔

صحافی کے قتل پر احتجاج کرتے ہوئے امریکا، برطانیہ، جرمنی سمیت دیگر عالمی قوتوں نے سعودی عرب میں ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس کا بائیکاٹ کیا ہے۔ 

دوسری جانب قطر کی وزارت خارجہ کی ترجمان لولوہ الخاطر نے بھی لندن کے چیٹم ہاؤس تھینک ٹینک میں ایک سیمینار میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ آل سعود حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے سعودی صحافی کا قتل پورے علاقے کے لئے خطرے کی ایک گھنٹی ہے-قطر کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ دوحہ جمال خاشقجی کے قتل کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہے- ان کا کہنا تھا کہ اس قتل کیس کے بارے میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی کا مشترکہ بیان، عالمی برادری کے مطالبات کی ترجمانی کرتا ہے

  خیال رہے کہ  سعودی حکومت کے مخالف صحافی جمال خاشقجی، دو اکتوبر کو ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد سے لاپتہ ہو گئے تھے۔ عالمی دباؤ کے نتیجے میں اٹھارہ روز کی خاموشی اور انکار کے بعد سعودی حکومت نے اس بات کا اعتراف کیا کہ جمال خاشقجی کو استنبول میں واقع اس کے قونصل خانے میں تلخ کلامی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ تازہ ترین اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ جمال خاشقجی کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے حکم سے سعودی انٹیلی جینس کے اہلکاروں نے قتل کیا ہے۔ 

ٹیگس