امریکہ میں انتہا پسندی کی آگ کے شعلہ ور ہونےکے نتائج
امریکہ میں ایک اور نسل پرستانہ واقعے میں ایک شخص نے ریاست پنسلوانیا میں واقع شہر پیٹس برگ میں، یہودیوں کی ایک عبادت گاہ میں گھس کر فائرنگ کردی جس کے نتیجے کم ازکم چودہ یہودی ہلاک ہوگئے-
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اس کلیسا میں فائرنگ کرنے والا شخص لوگوں پر فائرنگ کرتے وقت یہ چلا کے کہہ رہا تھا "سب یہودیوں کو قتل کردینا چاہئے"- یہ واقعہ، اس واقعے کے چند دن بعد رونما ہوا ہے کہ جب ایک شخص نے امریکہ کے موجودہ و سابق اعلی عہدیداروں کے لئے دھماکہ خیز مواد کے حامل کم از کم تیرہ پیکٹ ارسال کئے ہیں- البتہ ان دھماکہ خیز مواد کے حامل پیکٹوں کے ارسال کرنے سے کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا تاہم اس واقعے نے امریکی معاشرے میں گذشتہ چند دنوں سے تشویش اور بے چینی پیدا کردی ہے-
واضح رہے کہ امریکہ میں وسط مدتی انتخابات میں صرف دس دن کا وقت باقی بچا ہے اور ایسی صورت حال میں کہ جب ترکی کے شہر استنبول میں سعودی عرب کے قونصل خانے میں مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے پیدا ہونے والا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، امریکہ کے موجودہ اور سابق اعلی عہدیداروں کے لئے دھماکہ خیز مواد کے حامل پیکٹ ارسال کئے جانے اور فائرنگ کے اس تازہ ترین واقعے نے سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ٹرمپ نے ڈیموکریٹ کے سرکردہ رہنماؤں کے لیے دھماکہ خیز مواد کے پیکٹ ارسال کیے جانے کے معاملے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم سب کو متحد ہو کر واضح پیغام دینا چاہیے کہ امریکہ میں کسی بھی قسم کے سیاسی تشدد اور دھمکیوں کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ تاہم سینیٹ میں سرکردہ ڈیموکریٹ رہنماؤں، سینیٹر چک شومر اور نینسی پیلوسی نے اپنے مشترکہ بیان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک ٹرمپ تشدد پسندی کی حمایت میں بیان دینے سے اجتناب نہیں کریں گے، اس وقت تک امریکیوں کے درمیان اتحاد کی ان کی اپیلوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
اگرچہ ریڈیکل ازم ، تشدد اور دہشت گردی، امریکہ میں ایک مرض شمار ہوتا ہے اور یہ مرض حالیہ برسوں میں ایک بار پھر عود کر آیا ہے- مثال کے طور پرکچھ عرصہ قبل ایک نسل پرست جوان نے ریاست کیرولینا میں سیاہ فاموں کی عبادت گاہ میں گھس کر لوگوں پر فائرنگ کھول دیا تھا- اسی طرح ریاست وجینیا کے شہر شارلوٹسویل میں نسل پرستی کے خلاف مظاہرے میں بھی ایک شخص ہلاک کردیا گیا۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکہ میں اکثرو بیشتر سیاسی اور انتخابی اجتماعات میں مخالفین کے نفرت انگیز اقدامات کی لہر پیدا ہوجاتی ہے اور حتی غیر قانونی مہاجرین کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے ، ٹرمپ انتظامیہ نے بچوں کو ان کے والدین سے جدا کرنے جیسا رویہ بھی اختیار کیا ۔ ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی معاشرے میں دیگر زمانوں سے زیادہ صبرو تحمل کا دامن ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے-
توقع کی جارہی تھی کہ اقلیتوں کے حقوق کی رعایت ، ادیان کے پیروکاروں کا احترام اور شہریوں کی جان کا تحفظ ، امریکی معاشرے میں ایک واضح اور ناقابل تغیر اصول میں تبدیل ہوجائے گا لیکن گذشتہ چند برسوں کی تبدیلیوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ابھی بھی سیاہ فاموں کو نسلی تفریق کا سامنا ہے اور مسلمانوں اور یہودیوں کو جانی حملوں کا خطرہ لاحق ہے اور اندرون ملک انتہا پسند عناصر اس ملک کے سابق صدور کو بھی دھمکی دینے کی توانائی رکھتے ہیں- خبروں کے مطابق دھماکہ خیز پیکٹس، واشنگٹن میں سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دفتر کو بھی ارسال کیے گئے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے آغاز سے اب تک امریکہ میں فائرنگ کے سینتالیس ہزار واقعات ریکارڈ کئے گئے جن میں بارہ ہزار سے زائد افراد ہلاک اور تئیس ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ بہرحال امریکہ میں تشدد کی ثقافت ، لوگوں کی باآسانی ہتھیاروں تک رسائی، نظریاتی جنگ کا عروج، سیاستدانوں کے جارحانہ رویے میں شدت اور امریکی شہریوں میں رواداری اور تحمل میں کمی نے، اس ملک میں ریڈیکل ازم کے شعلے بجھنے کی امید کم کردی ہے۔