Nov ۰۸, ۲۰۱۸ ۱۴:۵۴ Asia/Tehran
  • امریکی انتظامیہ کے لئے بہت خراب دن آنے والے ہیں: جواد ظریف

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر جواد ظریف نے امریکی پابندیوں کے دوسرے مرحلے کے آغاز کے ایک دن بعد امریکی حکمرانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکی انتظامیہ کے لئے بہت خراب دن آنے والے ہیں-

 ان کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت نے اپنے عوام کے مفادات پر سعودی اور صیہونی حکومت کے مفادات کو ترجیح دے دی ہے اور کوشش کر رہی ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے جرائم کی جیسے بھی ممکن ہو پردہ پوشی کرے خواہ اس کے لئے امریکی عوام کے مفادات کو نظر انداز ہی کیوں نہ کرنا پڑے-

ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے ملت ایران کے نام اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ایران کے تاریخ ساز عوام نے اپنی استقامت و خود اعتمادی اور سعی و کوشش کے ذریعے تاریخی تبدیلیاں انجام دی ہیں۔ اور اس بار بھی وہ ایسا ہی کریں گے اور امریکیوں کو ٹرمپ حکومت کے غیرعاقلانہ اور غیر دانشمندانہ اقدامات سے پشیمانی اٹھانی پڑے گی-امریکی پابندیوں کے دوسرے مرحلے میں، تیل کی فروخت و برآمدات اور مالی ٹرانزیکشن سے متعلق ایران کے خلاف امریکہ کی ظالمانہ پابندیاں، پیر پانچ نومبر سے شروع ہو گئی ہیں۔ 

یہ وہ پابندیاں ہیں جنہوں نے ایرانی عوام کو براہ راست نشانہ بنایا ہے اور کسی بھی اخلاقی و بین الاقوامی اصول و قوانین سے سازگار نہیں ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس قسم کے یکطرفہ اقدامات اس امر کے غماز ہیں کہ وہ دنیا کے مخالف سمت میں چل رہے ہیں۔ ٹرمپ کے اقدامات در حقیقت خودسرانہ ہیں کہ جو دنیا کے ملکوں کے لئے خطرہ شمار ہوتے ہیں- 

بین الاقوامی قوانین سے ٹرمپ حکومت کی بے توجہی اور ایران کے خلاف زورآزمائی کے نتیجے میں دیگر ممالک بھی اس سے متاثر ہوں گے اور ٹرمپ اب تک کئی بین الاقوامی معاہدوں منجملہ پیرس معاہدے اور ایران کے ایٹمی معاہدے سے نکل گئے ہیں اور انہوں نے تجارتی جنگ شروع کررکھی ہے۔  

اسی سلسلے میں ایران کی وزارت خارجہ کے بین الاقوامی اور سیاسی ریسرچ سینٹر کے سربراہ محمد کاظم سجاد پور نے برطانوی تھنک ٹینک چیٹم ہاؤس میں کہا کہ امریکی حکومت کا نظریہ یورپی حکمرانوں پر برتری کا ہے اس لئے یورپی حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ متحد ہوکر اور تیز رفتاری کے ساتھ امریکہ کی یکطرفہ پسندی کے مقابلے میں اقدامات انجام دیں-

ایٹمی معاہدے سے امریکہ کو خارج کرنے کی ٹرمپ کی تخریبی پالیسی کے بعد، عالمی سطح پر امریکہ مخالف اتحاد وجود میں آیا ہے اور اس کے لئے مزید اقدامات عمل میں لائے جانے کی ضرورت ہے تاکہ امریکہ کی موجودہ حکومت اس سے زیادہ، دنیا والوں سے سرد جنگ جیسے لب و لہجے میں بات نہ کرے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے لب و لہجے اور انداز گفتگو کی مخالفت کا دائرہ ایشیا سے افریقہ تک پھیل چکا ہے جس سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ٹرمپ کی ہٹ دھرمی اور منھ زوری کی پالیسیاں، کوئی بھی ماننے کو تیار نہیں ہے۔ اسی سلسلے میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے منگل کو اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ان کا ملک ایران مخالف امریکی پابندیوں کو تسلیم نہیں کرے گا کہا کہ یہ پابندیاں بین الاقوامی قوانین اور عالمی ڈپلومیسی کے برخلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سبھی پرامن دنیا میں زندگی گذارنا چاہتے ہیں، وہ سامراجی دنیا میں نہیں رہنا چاہتے۔

ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد متعدد وجوہات کی بناء پر بڑی سامراجی طاقتوں نے اسلامی نظام کی مخالفت کرنا شروع کردی - اس انقلاب نے اسی ابتدا سے ہی یہ ثابت کردکھایا ہے کہ ایک قوم اپنے خالی ہاتھوں سے عالمی طاقتوں کے تانے بانے بکھیر سکتی اور عظیم تبدیلیوں کا سرچشمہ قرار پا سکتی ہے-

اسلامی جمہوری نظام  گذشتہ چالیس برسوں کے دوران جن سختیوں اور دباؤ کا متحمل ہوا ہے وہ اس امر کا غماز ہے کہ ایرانی قوم نے اپنے اہداف اور امنگوں کے حصول کے لئے ان تمام سختیوں اور دباؤ کا مقابلہ کیا ہے اور پوری قوت کے ساتھ وہ آگے کی سمت بڑھی ہے- درحقیقت کسی انقلاب کے زندہ رہنے کا اندازہ، اس قوم کے اپنے اہداف اور کامیابیوں تک رسائی اور اسی طرح عالمی تبدیلیوں پر اس کے اثرانداز ہونے سے لگایا جا سکتا ہے- اور اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کی موجودہ پوزیشن کو اسی معیار پر پرکھنا چاہئے-

امریکہ اور اس کا بغل بچہ اسرائیل اور آل سعود اگرچہ نہیں چاہتے کہ اپنی ناتوانی کا اعتراف کریں لیکن اپنے باطنی میلان اور رجحان کے باوجود مجبور ہیں کہ انقلاب کی عظمت اور اسلامی جمہوری نظام کی قوت و اقتدار کا اعتراف کریں- کیوں کہ وہ اپنے کینے ، دشمنی اور خلاف ورزیوں کے ذریعے انقلابی اقدار اور ایرانی قوم کی قوت اقتدار کو ذرہ برابر کم نہیں کرسکے ہیں اور نہ ہی کرسکیں گے کیوں کہ ایرانی عوام تمام تر سختیوں اور مشکلات کے باوجود منھ زورطاقتوں کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں-

ٹیگس