ایران کے دیگر مسائل سے ایٹمی معاہدے کو مربوط کرنے پر روس کی مخالفت
امریکہ نے رواں سال مئی میں ایٹمی معاہدے سے نکلنے کے بعد سے ہمیشہ یہی کوشش کی ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو دیگر مسائل سے جوڑ کر، ایٹمی معاہدے سے اپنے نکلنے کی توجیہ کرے-
اسی سلسلے میں واشنگٹن نے ایران کے میزائل پروگرام کو بڑا بناکر پیش کیا اور ایران کی علاقائی پالیسیوں اور اقدامات کو خطرناک بتایا تاکہ ایٹمی معاہدے میں شامل گروپ فور پلس ون 1+4 کے دیگر ملکوں کو بھی اپنا ہمنوا بنالے اور ایران کے خلاف محاذ قائم کرے-
اگرچہ امریکہ کے اس موقف کی گروپ فور پلس ون اور خاص طور پر روس اور چین نے ہمیشہ مخالفت کی ہے- اسی سلسلے میں اقوام متحدہ میں روسی نمائندہ واسیلی نبنزیا نے بدھ کے روز سلامتی کونسل کے اجلاس میں کہ جو بائیس اکتیس قرارداد پر عملدرآمد کے بارے میں، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی رپورٹ کا جائزہ لینے کے لئے تشکیل پایا تھا، کہا کہ ایران کے دیگر مسائل سے ایٹمی معاہدے کو مربوط کرنے کا روس مخالف ہے- نبنزیا نے مزید کہا کہ روس، ایٹمی معاہدے کی حفاظت کے لئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی اپیل کا احترام کرتا ہے اور اس معاہدے کی حفاظت کرے گا، اس لئے کہ یہ معاہدہ علاقائی اور بین الاقوامی سلامتی میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے- وہ اس نظریے کی بھی حمایت کرتا ہے کہ وہ مسائل کہ جو اس معاہدے میں شامل نہیں ہیں اور اس سے متعلق نہیں ہیں انہیں ایٹمی معاہدے سے مربوط نہ کیا جائے-
ماسکو کے نقطہ نگاہ سے اس وقت ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں متضاد صورتحال پائی جاتی ہے کیوں کہ امریکہ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک رکن کی حیثیت سے نہ صرف بائیس اکتیس قرارداد پر عملدرآمد سے اجتناب کر رہا ہے بلکہ اس کوشش میں ہے کہ دیگر رکن ملکوں کو سلامتی کونسل اور ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن کے فیصلوں پرعملدرآمد کے سبب سزا دے- ایٹمی معاہدے کے تعلق سے روس کا موقف، امریکی موقف سے یکسر مختلف اور متضاد ہے- سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس میں امریکی وزیر خارجہ نے دعوی کیا کہ ایران کے بیلسٹیک میزائل کی سرگرمیاں کنٹرول سے خارج ہوچکی ہیں- مائیک پامپیئو نے اس بات کا دعوی کرتے ہوئے کہ ایران مختلف طریقوں سے قرارداد بائیس اکتیس کی مخالفت کر رہا ہے، یہ مطالبہ کیا کہ ایران کے میزائلی تجربات بند ہونے چاہیئے- اس کے باوجود جیسا کہ روسی نمائندہ نے بھی اس مسئلے پر تاکید کی ہے کہ ایٹمی معاہدے اور ایران کے میزائل پروگرام کے درمیان کوئی ربط نہیں ہے- امریکی حکام پہلے بھی، جیسا کہ ایران کے بارے میں پامپئو نے بارہ شرطیں پیش کی تھیں، ہمیشہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے ساتھ دیگر مسائل خاص طور پر میزائل پروگرام اور ایران کی علاقائی پالیسیوں کا ایٹمی معاہدے سے سیدھا ربط دینے کے درپے رہے ہیں-
واشنگٹن کا یہ رویہ ایٹمی معاہدے کے دیگر فریقوں اور اقوام متحدہ کو قابل قبول نہیں ہے- کیوں کہ ایٹمی معاہدے کے دائرے میں امریکی مطالبات، ایٹمی مسائل سے بالکل مختلف اور متضاد ہیں- امریکہ ، ایران کے ایٹمی پروگرام اور میزائل پروگرام کو مکمل طور پر روکے جانے اور علاقے کے ملکوں میں ایران کی علاقائی پالیسیوں اور اقدامات سے دوری اختیار کرنے کا خواہا ہے- ایران نے امریکہ کے ان مطالبات کی شدت سے مخالفت کی ہے اور تہران، اپنے مفادات کے تحفظ کے ساتھ ہی ایٹمی معاہدے کی حفاظت پر تاکید کرتے ہوئے اپنے میزائل پروگرام اور علاقائی پالیسیوں پر کسی بھی قسم کی پابندی اور روک ٹوک کا سختی سے مخالف ہے- اگرچہ پامپیئو نے یہ دعوی کیا ہے کہ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ وہ سلامتی کونسل کے تمام رکن ملکوں کے ساتھ تعاون کرے تاکہ ایران کے بیلسٹیک میزائلوں کے پروگرام کے خلاف اقوام متحدہ کے ذریعے سخت پابندیاں عائد کی جائیں لیکن اس کے ساتھ ہی اسے اس بات کا بھی بخوبی علم ہے کہ اس کے یہ مطالبات کبھی عملی جامہ نہیں پہن سکتے-
سیاسی ماہر باربارا اسلاوین Barbara Slavin کہتے ہیں کہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں پامپیئو کا بیان، صرف کھوکھلے الفاظ ہیں اور محض نفسیاتی جنگ کے مقصد سے ہیں- اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ایران کے بیلسٹیک میزائل پروگرام کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرے گی- یہ مسئلہ پہلے سے سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس میں ذکر کیا جا چکا ہے اور ایران کا یہ کہنا ہے کہ اس نے میزائل تجربات کے ذریعے کوئی خلاف ورزی نہیں کی ہے-
ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ امریکہ کی ایٹمی معاہدے کی پالیسی، کہ جو اس ملک کی دیگر یکطرفہ پالیسیوں کی طرح ہی ہے، کبھی کامیاب نہیں ہوگی اور موجودہ قرائن و شواہد کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ آخرکار واشنگٹن مجبور ہوگا کہ اپنی اس پالیسی کی ناکامی کو تسلیم کرے-