شام کے بارے میں ٹرمپ کے فیصلے پر ردعمل جاری
شام سے امریکی فوجیوں کی واپسی کے اعلان کے بعد ٹرمپ کے ملک اور خود ان کی کابینہ میں ان کے فیصلے پر متعدد منفی ردعمل سامنے آئے ہیں -
ٹرمپ کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے امریکی وزیر جنگ جیمز میٹس کے استعفے کے بعد داعش مخالف نام نہاد امریکی اتحاد میں امریکی صدر کے خصوصی نمائندے برٹ میک گورک نے بھی اعلان کیا ہے وہ فروری دوہزارانیس میں اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے- برٹ میک گورک نے امریکی وزیرخارجہ مائیک پمپؤ کو اطلاع دی ہے کہ انھوں نے شام سے دوہزارامریکی فوجیوں کو واپس بلانے کے ٹرمپ کے فیصلے کی مخالفت میں یہ قدم اٹھایا ہے- میک گورک نے امریکی وزیرجنگ جیمز میٹس کے استعفے کے صرف ایک دن بعد اپنے اس فیصلے کا اعلان کیا ہے اور توقع ہے کہ پنٹاگون حکام کے استعفوں کی تعداد میں ابھی مزید اضافہ ہوگا- جیمس میٹس ٹرمپ سے اختلاف نظر کی بنا پر فروری سے پنٹاگون چھوڑ دیں گے-
ڈونالڈ ٹرمپ نے بدھ کو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شام سے امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کی خبر دی - ٹرمپ کے اس اقدام کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں - شام سے امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کے فیصلے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ٹرمپ حکومت کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم وصول سیکورٹی کو تجارتی بنانا ہے جس کی بنا پرٹرمپ علاقے اور دنیا کے مختلف علاقوں میں امریکی فوجیوں کی موجودگی جاری رکھنے کے خلاف ہیں کیونکہ ان کی نظر میں دنیا کے مختلف علاقوں میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کا امریکہ کو کوئی مادی فائدہ نہیں حاصل ہوا ہے بلکہ اس سے صرف مالی اور انسانی جانوں کا نقصان ہوا ہے- ٹرمپ کا خیال ہے کہ اس اقدام سے امریکہ کو لاحاصل معاہدے کرنے پڑے ہیں اور یہ درحقیقت علاقے میں امریکی اتحادیوں کو " مفت سواری " دینے کی پالیسی کے مترادف ہے- لہذا امریکی صدر چاہتے ہیں کہ امریکی اتحادی علاقائی معاہدے اور ان کے اخرجات خود سنبھالیں- دوسری جانب اپنی انتخابی مہم " امریکہ فرسٹ " کے نعرے کے تناظر میں ٹرمپ کا خیال ہے کہ امریکہ اپنے عالمی معاہدوں کو کم کرے اور بدلے میں اس سے ہونے والی بچت امریکہ کی اندرونی تعمیر و ترقی میں خرچ ہو- ٹرمپ نے اس سلسلے میں کہا کہ کیا امریکہ چاہتا ہے کہ وہ مشرق وسطی کا پولیس مین بنے ، اسے کچھ حاصل نہ ہو لیکن قیمتی جانیں اور ٹریلنوں ڈالر دوسروں کی حفاظت کے لئے خرچ کرے اور تقریبا کسی بھی معاملے میں ہم جو کریں اس کی قدردانی بھی نہ ہو؟ کیا ہم ہمیشہ کے لئے وہاں رہنا چاہتے ہیں ؟ اب وقت آگیا ہے کہ دوسرے بھی آخرکار داعش کے خلاف جنگ کے لئے کھڑے ہوں - شام کے بارے میں ٹرمپ نے دعوی کیا کہ داعش کے خلاف امریکہ کی جنگ دشمنوں اور امریکہ کے علاقائی و بین الاقوامی حریفوں یعنی ایران و روس کے فائدے میں ہے- جبکہ ٹرمپ یہ بھول گئے ہیں کہ انھوں نے خود اپنی انتخابی مہم کے دوران اعتراف کیا تھا کہ داعش کو اوباما حکومت نے جنم دیا اور شام میں داعش کے خلاف جنگ کے بہانے امریکہ کی غیرقانونی موجودگی درحققت واشنگٹن کے علاقائی اہداف کے تناظر میں ہے - بنیادی طور پر شام میں امریکہ کی فوجی موجودگی نہ ہی شام کی قانونی حکومت کی درخواست پر ہے اور نہ ہی سلامتی کونسل کی قرارداد کی بنیاد پر انجام پائی ہے- اس کے ساتھ ہی حکومت شام نے بارہا واشنگٹن سے اپیل کی ہے کہ وہ شام میں اپنی غیرقانونی موجودگی ختم کرے- دوسرا مسئلہ جس کی طرف اشارہ کرنا چاہئے وہ شام میں امریکہ کی کمزور پوزیشن اور اس ملک میں طاقت کا توازن دہشتگردوں کے حق میں تبدیل نہ کرپانا ہے- درحقیقت شام میں اس ملک کی فوج اور اس کے اتحادیوں کی کامیابی نے امریکی فوجیوں کے لئے طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں چھوڑی ہے - ان تحفظات کے برخلاف امریکی اسٹبلیشمنٹ جس کا حصہ جیمزمیٹس بھی ہیں ، ٹرمپ کے اقدام کے مخالف ہیں اور شام سے انخلاء کو امریکہ کے علاقائی مفادات اور معاہدوں کے برخلاف سمجھتے ہیں - ان کا خیال ہے کہ امریکی طاقت کا بھرم اس کے اتحادیوں اور اتحادی نیٹ ورک کا مرہون منت ہے - میٹس کے بقول امریکہ کی حیثیت کے باوجود ہم مضبوط اتحادیوں کے تحفظ اور ان کا احترام ظاہر کئے بغیر موثرشکل میں اپنا کردار ادا نہیں کرسکتے-