Dec ۲۵, ۲۰۱۸ ۱۵:۵۳ Asia/Tehran
  • روس کو شام سے امریکی فوجیوں کے انخلا پر شک

امریکہ نے سن دوہزارگیارہ سے اپنے مغربی و عربی اتحادیوں کے ساتھ مل کر شام میں بشار اسد کی منتخب حکومت کو گرانے کی کوشش کے تحت بڑے پیمانے پر اس ملک میں دہشتگرد گروہوں کی مدد شروع کی اور دوہزار چودہ سے اس نے اس کوشش کو تیز کرتے ہوئے داعش مخالف نام نہاد اتحاد تشکیل دے کر اس ملک میں اپنے اتحادیوں کی مدد کے لئے شام کے بعض علاقوں میں براہ راست اپنے فوجی اتار دیئے -

اس کے باوجود شام میں واشنگٹن کے مدنظر مقاصد کی ناکامی ، فوجیوں کو تعیناتی پر آنے والے بھاری اخراجات جیسے مسائل اور سب سے بڑھ کر امریکی صدر کی علاقائی معاہدوں کو کم کرنے اور ان معاہدوں کو اتحادیوں کے حوالے کرنے کی پالیسی کے باعث شام سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کا فرمان جاری کردیا- چنانچہ امریکی صدر نے پیر کی رات ایک ٹوئیٹ میں دعوی کیا کہ سعودی عرب نے قبول کرلیا ہے کہ شام کی تعمیر نو کے اخراجات  امریکہ کے بجائے ریاض ادا کرے گا-

 اس کے باوجود شام سے امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کے ٹرمپ کے اقدام پر امریکی حکام ، سیاستدانوں اور اسٹریٹیجسٹوں نے  اس پر منفی ردعمل ظاہر کیا خاص طور سے امریکی وزیرجنگ جیمز میٹس نے ٹرمپ کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تاہم انھوں نے اپنی ڈیوٹی پوری کرتے ہوئے اتوار کو شام سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کا حکم جاری کردیا ہے- امریکی سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے اس اقدام سے علاقے میں واشنگٹن کے اسٹریٹیجک مفادات کو نقصان پہنچے گا اور علاقے میں امریکی اتحادیوں کے حوصلے پست ہوجائیں گے-

ان سب کے باوجود شام میں ایک اصلی بازیگر کے عنوان سے روس  ٹرمپ کے اس اقدام کو شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھتا ہے- روس کے نائب وزیرخارجہ ریابکوف کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت اپنے مفادات کی حفاظت کے  لئے اس عرب ملک میں اپنی فوجی موجودگی کو ضروری سمجھتا ہے- ماسکو کا خیال ہے کہ امریکہ ایسی ہزاروں دلیلیں اور بہانے بنائے گا جس کے ذریعے شام سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے فیصلے پر نظر ثانی کرے- ماضی کے تجربات کے پیش نظر شام سے باہر نکلنے کے امریکی فیصلے کی تصدیق کرنا بہت مشکل ہے-

 ماسکو کا خیال ہے کہ امریکہ کے علاقائی مفادات و مقاصد کے پیش نظر بعید نظر آتا ہے کہ یہ ملک اپنے مفادات کو نظر انداز کرکے اچانک شام سے باہر نکل جائے گا- گذشتہ مہینوں کے دوران کچھ امریکی حکام نے اعلان کیا تھا کہ شام میں امریکہ کی فوجی موجودگی بدستور جاری رہے گی- انھوں نے کہا تھا کہ داعش کے خلاف جنگ ختم ہونے کے بعد بس صرف ان کی ذمہ داری تبدیل ہوجائے گی اور شام میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کا مقابلہ کرنے کے لئے ان کی موجودگی جاری رہے گی- امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے مشیر جان بولٹن اور شام میں امریکہ کے خصوصی نمائ‏ندے جیمز جفری جیسے افراد اسی موقف کے حامی ہیں- جان بولٹن نے اگست دوہزاراٹھارہ میں کھل کر اعلان کیا تھا کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ تمام ایرانی فوجی ، شام سے ایران واپس بھیجے جائیں- شام کے امور میں امریکی مندوب جیمز جفری نے کہا تھا کہ  جب تک ایران اور اس کے حمایت یافتہ نیم فوجی شام سے باہر نہیں نکل جاتے اس وقت تک وہ اس ملک میں موجود رہیں گے- یہ موقف امریکی صدر ٹرمپ  کے موقف کے بالکل برخلاف ہے - ہرچند  شروع میں امریکہ داعش کے خلاف جنگ کے بہانے شام میں گیا تھا تاہم اس کے بعد شام میں ایران اور اس کے اتحادیوں کی موجودگی کا مقابلہ کرنے کا مسئلہ بھی واشنگٹن کے ایجنڈے میں شامل ہوگیا - اور یہی وہ مسئلہ ہے جس کی بنا پر روس کو شام سے امریکہ کے باہر نکلنے پر شک ہو رہا ہے-

جبکہ ایران کا خیال ہے کہ امریکہ ، داعش کے خلاف جنگ کے بارے میں جھوٹ بول رہا ہے- ایران کے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف کا کہنا ہے کہ امریکہ ، داعش کے خلاف ہرگز جنگ نہیں کی اور شام میں اس کی موجودگی ملت شام یا حکومت کے حق میں نہیں رہی ہے-

ٹیگس