شام کے بارے میں اپنے موقف سے ٹرمپ کی پسپائی
شام کا بحران تقریبا آٹھ سال قبل امریکی، یورپی اور عرب اتحادیوں کی مداخلت سے، دہشت گردوں کی حمایت کے ساتھ شروع ہوا تھا تاکہ شام کی قانونی حکومت کو گرایا جاسکے، تاہم اس وقت طاقت کا توازن مکمل طور پر شام اور اس کے اتحادیوں کے حق میں تبدیل ہوچکا ہے-
اس وقت امریکہ شام کے حالات پر اثرانداز ہونے یا طاقت کے توازن کو دہشت گرد گروہوں کے حق میں تبدیل کرنے کی توانائی کھوچکا ہے- ساتھ ہی شام میں تعینات امریکی فوج کے لئے بھاری بھرکم اخراجات اور اس سے بھی اہم مسئلہ، واشنگٹن کی جانب سے علاقائی وعدوں میں کمی لانے کے مقصد سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا رویہ اس بات کا باعث بنا کہ ٹرمپ اچانک انیس دسمبر کو یہ اعلان کردیتے ہیں کہ وہ شام سے اپنے فوجی باہر نکال رہے ہیں- امریکی صدر نے داعش دہشت گرد گروہ کے مقابلے میں اپنی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے اس بات کا دعوی کیا کہ اب شام میں ان کے باقی رہنے کی کوئی وجہ نہیں رہ گئی-
اس کے ساتھ ہی ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ اس مسئلے میں ملکی سطح پراور واشنگٹن کے یورپی اتحادیوں کی جانب سے ٹرمپ پر پڑنے والے دباؤ کے سبب، اب وہ اپنے سابقہ منصوبے کو تبدیل کرنے، اور شام سے امریکی فوجیوں کو تیس دن میں نکالنے کے بجائے تین مہینے میں نکالنے کا اعلان کرکے دمشق کے تعلق سے اپنے موقف سے پسپائی کر رہے ہیں- اسی سلسلے میں ٹرمپ نے بھی بدھ دو جنوری کو وائٹ ہاؤس میں یہ دعوی کیا کہ شام سے امریکی فوج کے انخلا کے باوجود، شام کے کردوں کی محافظت کرتے رہیں گے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ ٹرمپ اس سے قبل داعش دہشت گرد گروہ پر کامیابی کا اعلان کرکے اس بات کے مدعی تھے کہ اب شام میں امریکی فوجیوں کے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے
اب اس وقت جبکہ ٹرمپ اپنی ایک اور ذمہ داری یعنی شام کے کردوں کی حمایت کی بات کر رہے ہیں تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ ٹرمپ، شام میں تعینات امریکی فوجیوں اور اس کی اتحادی فورسیز یعنی کرد ملیشیا اور سیرین ڈموکریٹیک فورسیز کی میدانی صورتحال کے حقائق کے بارے میں صحیح ادراک نہیں رکھتے ہیں- واشنگٹن نے گذشتہ چند برسوں کے دوران شام کے شمال اور شمال مشرقی علاقوں میں، کردملیشیا اور سیرین ڈموکریٹک فورسیز سمیت امریکی فوجیوں کو تعینات کرکے اس بات کا دعوی کیا ہے کہ وہ داعش دہشت گردوں سے مقابلہ کر رہا ہے۔ اس کے باوجود شام سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا اعلان، واشنگٹن کے کرد اتحادیوں کے کے لئے ایک چونکا دینے والا اعلان تھا- تاہم وہ مجبور ہوئے کہ مشرقی فرات کے علاقوں سے ترکی کے حملے کے خطرے کی روک تھام کے لئے شام کی فوج سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ کردوں کے زیر تسلط بعض علاقوں منجملہ منبج اور اس کے اطراف میں تعینات ہوجائیں-
اخبار نیویارک ٹائمز نے انیس دسمبر کے اپنے ایک اداریے میں لکھا تھا کہ شام سے امریکی فوج کے انخلا کے ساتھ ہی ، اس مسئلے میں سب سے بڑی ہار کرد ملیشیا کی ہوگی- کردوں کی حمایت جاری رکھنے کا مطالبہ، واشنگٹن کے یورپی اتحادی بھی کر رہے ہیں- فرانس کے صدر امانوئل میکرون نے بدھ کے روز روسی صدر ولادیمیر پوتین کے ساتھ ٹیلیفونی گفتگو میں، شام میں اتحادی فورسیز خاص طور پر کرد ملیشیا کے تحفظ کی ضرورت پر تاکید کی-
الیزہ پیلس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ فرانس کے صدر نے مقامی عوام کے حقوق کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے اور اتحادی فورسیز خاص طور پر کردوں کے تحفظ کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے، دہشت گردی سے مقابلے کے لئے اپنے وعدوں کو مدنظر قرار دینے کو ضروری بتایا ہے- ناقدین کے نقطہ نگاہ سے شام سے امریکی فوجیوں کو نکالنے کا ٹرمپ کا فیصلہ ، ایک مکمل پسپائی کا آئینہ دار ہے کہ جو کسی تحقیق و جائزے اور امکانی خطرات کو مدنظر رکھے بغیر کیا گیا ہے کہ جس کے نتائج واشنگٹن اور علاقائی اتحادیوں کے لئے بہت سنگین ہوں گے-
یہی مسئلہ اس بات کا باعث بنا ہے کہ ٹرمپ نے ایک اور موقف اپناتے ہوئے امریکی فوجیوں کے نکالے جانے کے باوجود شام میں کاروائی انجام پانے پر تاکید کی ہے- اس طرح سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ حکومت شام سے مکمل طور پر خارج نہیں ہوئی ہے بلکہ اس نے صرف اپنی فوج کو شام سے عراق منتقل کردیا ہے اور وہ شام میں ممکنہ فوجی مداخلت کے لئے بدستور آمادہ ہے -