Jan ۰۵, ۲۰۱۹ ۱۶:۵۳ Asia/Tehran
  • ایران کے خلاف علاقائی اتحاد قائم کرنے کے تعلق سے امریکی اعتراف

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کا تختہ پلٹنے یا اسے کمزور کرنے کو اپنے ایجنڈے میں قرار دے رکھا ہے- اسی سلسلے میں ٹرمپ نے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کو نکالنے اور ایران کے خلاف ایٹمی پابندیوں کو دوبارہ عائد کرنے کے ذریعے، ایران میں غربت اور بدامنی کو بڑھاوا دینے کے مقصد سے اقتصادی جنگ شروع کر رکھی ہے-

لیکن 2017 میں قومی سلامتی کی اسٹریٹیجی کی دستاویز کے دائرے میں ٹرمپ حکومت نے علاقائی سطح پر ایران پر قابو پانے کے مقصد سے، علاقائی اتحاد قائم کرنے اور مشرق وسطی کی سطح پر پالیسیوں میں تبدیلی لانے کے لئے بہت زیادہ کوششیں انجام دی ہیں- اسی سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پامپئو نے ایک ریڈیو کے ساتھ  خصوصی گفتگو میں اعتراف کیا ہےکہ واشنگٹن نے بقول ان کے، ایران کے خطروں کے مقابلے میں اسرائیل اور عرب ملکوں کا اتحاد قائم کیا ہے۔

پامپئو نے یہ بھی دعوی کیا کہ امریکہ کی سابق حکومت یعنی اوباما حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ ایران کو مشرق وسطی کے علاقے میں اپنا اتحادی قرار دے لیکن ٹرمپ حکومت نے اس کے بالکل برخلاف پالیسی اپنائی ہے-

ایران کے بارے میں اوباما حکومت کی پالیسی کے بارے میں امریکی وزیرخارجہ کا دعوی ، حقیقت کے بالکل برخلاف ہے۔ اوباما حکومت نے یورپی ملکوں کے ساتھ مل کر، واشنگٹن کے غیر قانونی مطالبات کے سامنے جھکنے پر مجبور کرنے کے لئے بدترین پابندیاں عائد کر رکھی تھیں کہ جو شکست سے دوچار ہوئیں اور پھر اوباما حکومت نے گروپ فائیو پلس ون کے ساتھ ایران کے مذاکرات شروع کئے کہ جس کا ماحصل، جون 2015 میں ایٹمی سمجھوتہ طے پانا تھا- 

لیکن ٹرمپ حکومت نے ایٹمی معاہدے کی مخالفت کرکے اور اس سے نکل جانے کے ساتھ ہی ، ایران کے خلاف مکمل طور پر جارحانہ اور دشمنانہ موقف اختیار کر رکھا ہے- اس پالیسی کے بنیادی اصولوں میں سے ایک مشرق وسطی میں ایران کی پالیسیوں کے مقابلے کے مقصد سے علاقائی اتحاد قائم کرنا ہے- اور سعودی عرب اور صیہونی حکومت اس سلسلے میں اہم رول ادا کر رہے ہیں-

امریکی وزیر خارجہ  پامپئو نے اس سلسلے میں کہا کہ ہم نے مشرق وسطی میں ایسے حالات پیدا کردیئے ہیں کہ یہ حکومتیں کئی محاذ پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرسکتی ہیں- پامپئو نے اپنے دورہ مشرق وسطی کے موقع پر یہ بیہودہ اور بےبنیاد باتیں کہی ہیں- پامپئو جب امریکہ کے وزیر خارجہ متعین ہوئے تھے اس وقت انہوں نے ایران کے  بارے میں بارہ شرطیں پیش کی تھیں، امریکی حکام  ہمیشہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے ساتھ دیگر مسائل خاص طور پر میزائل پروگرام اور ایران کی علاقائی پالیسیوں کا ایٹمی معاہدے سے سیدھا ربط دینے کے درپے رہے ہیں- درحققیت امریکہ، یہ چاہتا ہے کہ تہران اس کے سامنے مکلمل طور پر سر تسلیم خم کردے اور ایسا ہونے کی صورت میں نہ صرف ایران کی خودمختاری، بلکہ ایران کے تشخص پر سوالیہ نشان لگ جائے گا-

ایران گذشتہ چالیس برسوں میں امریکی دباؤ کے باوجود اس ملک کی جارحانہ اور سامراجی پالیسیوں کے مقابلے میں جھکا نہیں ہے- پامپئو نے چندین بار اس مسئلے پر تاکید کی ہے کہ ایران کو چاہئے کہ ایک عام ملک جیسا سلوک کرے- ایک عام ملک سے اس کی مراد درحقیقت وہ ملک ہے کہ جو امریکی مطالبات کے سامنے جھک جائے اور سعودی عرب کی طرح واشنگٹن کی پالیسیوں کا اجرا کرے اور اس کے ہتھیاروں کا خریدار ہو- جبکہ امریکہ کا یہ مطالبہ، ایران کی عزت و خودمختاری سے بالکل تضاد رکھتا ہے- 

امریکہ ، ایران کے ایٹمی پروگرام اور میزائل پروگرام  کو مکمل طور پر روکے جانے اور علاقے کے ملکوں میں ایران کی علاقائی پالیسیوں اور اقدامات سے دوری اختیار کرنے کا خواہاں ہے- ایران نے امریکہ کے ان مطالبات کی شدت سے مخالفت کی ہے اور تہران، اپنے مفادات کے تحفظ کے ساتھ ہی ایٹمی معاہدے کی حفاظت پر تاکید کرتے ہوئے اپنے میزائل پروگرام اور علاقائی پالیسیوں پر کسی بھی قسم کی پابندی اور روک ٹوک کا سختی سے مخالف ہے- اگرچہ پامپیئو نے یہ دعوی کیا ہے کہ  امریکہ یہ چاہتا ہے کہ وہ سلامتی کونسل کے تمام رکن ملکوں کے ساتھ تعاون کرے تاکہ ایران کے بیلسٹیک میزائلوں کے پروگرام کے خلاف اقوام متحدہ کے ذریعے سخت پابندیاں عائد کی جائیں لیکن اس کے ساتھ ہی اسے اس بات کا بھی بخوبی علم ہے کہ اس کے یہ مطالبات کبھی عملی جامہ نہیں پہن سکتے-

امریکی وزیر خارجہ کے بیہودہ دعووں کے باوجود، کہ جس کے ذریعے ایران کو علاقے میں الگ تھلگ ظاہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاہم ابھی بھی دنیا کے بیشتر ممالک متحد ہوکر ٹرمپ انتظامیہ کے ایران مخالف اقدامات کے مخالف ہیں- ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ امریکہ کی ایٹمی معاہدے کی پالیسی، کہ جو اس ملک کی دیگر یکطرفہ پالیسیوں کی طرح ہی ہے، کبھی کامیاب نہیں ہوگی اور موجودہ قرائن و شواہد کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ آخرکار واشنگٹن مجبور ہوگا کہ اپنی اس پالیسی کی ناکامی کو تسلیم کرے- امریکہ کے توسط سے ایران کی حکومت کا تختہ پلٹنے کی پالیسی ، یقینا ایرانیوں کے قومی وحدت میں اضافے اور ان میں سامراج مخالف جذبات میں اضافہ کا باعث بنے گی-

ٹیگس