پامپئو کا چند علاقائی ملکوں کا دورہ، اور ایران مخالف دعووں کا اعادہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دورۂ صدارت میں، مشرق وسطی کی سطح پر اپنی ایران مخالف کوششوں کو تیز کردیا ہے- امریکہ کے سینئر عہدیداروں کے توسط سے علاقے کے ملکوں کے مکرر دورے ، ایران کے خلاف اتحاد قائم اور اسے مضبوط کرنے نیز اپنے علاقائی اتحادیوں کے ساتھ تبادلۂ خیال اور علاقائی پالیسیوں کے دائرے میں انجام پا رہے ہیں-
اسی سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پامپئو نے کویت، مقبوضہ فلسطین اور لبنان کا دورہ کیا ہے- پامپئو نے یہ دورہ دو خاص مقاصد کے تحت کیا- پہلا ہدف و مقصد صیہونی حکومت کے ساتھ اسٹریٹیجک روابط پر تاکید کے ساتھ ہی اس کی مکمل حمایت کرنا نیز ایران اور اس کے علاقائی اتحادیوں کے خلاف مشترکہ اقدام انجام دینا تھا- اس دورے میں جولان پر اسرائیل کی حاکمیت سے متعلق ٹرمپ کی حمایت کے اعلان کے پیش نظر امریکی وزیر خارجہ نے بھی کوشش کی ہے کہ اس مسئلے پر مزید تاکید کریں اور ساتھ ہی مقبوضہ فلسطین میں انتخابات درپیش ہونے کے پیش نظر اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتنیاہو کے لئے ٹرمپ انتظامیہ کی حمایت کا اعلان کریں- بیروت سے شائع ہونے والے روزنامہ الاخبار نے پامپئو اور نتنیاہو کی ملاقات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ ملاقات، دو اتحادی ملکوں کی دوستی اور تعاون کی حمایت نیز ایران اور اس کے علاقائی اتحادیوں کے خلاف مشترکہ قدم اٹھائے جانے کے مقصد سے انجام پائی، گرچہ اسرائیل کے انتخابات میں نتنیاہو کی حمایت کا اعلان کرنا ، پامپئو کے دورے کے اہم اہداف میں شامل تھا- امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے اس دورۂ مقبوضہ فلسطین میں، صہیونی حکومت کے دیگر نامزد امیدواروں سے ملاقات سے انکار اس بات کو یقینی بنا دیتا ہے کہ اس دورے کا اصلی مقصد نتنیاہو کی حمایت کرنا تھا-
امریکی وزیر خارجہ کا دوسرا مقصد کہ جس کا پامپئو نے بارہا اور مختلف مواقع پر اس دورے میں اعلان کیا ، ایران کے علاقائی اثر و رسوخ سے مقابلہ تھا- اسی سلسلے میں پامپئو نے اپنے دورۂ لبنان میں، علاقے میں ایرانو فوبیا کی پالیسی کے دائرے میں دعوی کیا کہ ایران لبنان پر تسلط قائم کرنے اور بحیرۂ روم تک رسائی حاصل کرنےمیں کوشاں ہے-
پامپئو کی مشترکہ پریس کانفرنسوں میں قابل غور مسئلہ ، ایران سے مقابلے کے لئے شام ، علاقے اور دنیا میں اس کے اقدامات پر توجہ مرکوز کرنا تھا- پامپئو نے یہ بات اپنے کویتی ہم منصب کے ساتھ ملاقات میں اور پھر نتنیاہو سے بھی ملاقات میں کہی اور لبنان میں بھی ان ہی باتوں کی تکرار کی- پامپئو نے اپنے دورۂ لبنان میں، ایران اور حزب اللہ پر امریکی دباؤ بڑھانے کی کوشش کی- لیکن لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے ان پر یہ واضح کردیا کہ لبنان کی حکومت علاقائی تنازعات میں صبر و تحمل کی پالیسی پر کاربند ہے- پامپئو کے مطالبات پر لبنانی حکام کے ردعمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اس دورے کے اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہےہیں-
امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے یہ دعوی، کہ ایران علاقائی سطح پر منجملہ بحیرۂ روم تک اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے، ایسے میں کیا گیا ہے کہ ایران کا کردار گذشتہ چند برسوں کے دوران ، شام اور لبنان میں دہشت گردوں سے مقابلے اور ان ملکوں کو دہشت گردوں سے نجات دلانے میں ناقابل انکار رہا ہے- جبکہ امریکہ نے کھل کر دہشت گردوں کی نہ صرف حمایت کی ہے بلکہ ہمیشہ اسرائیل کے علاقائی توسیع پسندانہ مطالبات منجملہ حزب اللہ لبنان کے خلاف شدید پابندیاں عائد کرنے کو عملی جامہ پہنانے بھی کوشش کی ہے۔ اس مسئلے پر علمائے لبنان نے اپنا منفی ردعمل ظاہر کیا ہے- جنوبی لبنان کے شہر صور کے علماء کی یونین کے سربراہ شیخ علی یاسین عاملی نے پامپئو کے دورۂ لبنان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے، امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی طرفداری کے سبب اس دورے کو لبنان اور عرب ملکوں کی توہین قرار دیا ہے-
پامپئو نے اپنے علاقائی دورے کے پہلے مرحلے میں کویت میں، پھر جنوبی خلیج فارس کے ملکوں کے دورے میں یہ مطالبہ کیا تھا کہ عراق کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھائیں تاکہ بغداد کو ایران کی ضرورت نہ رہے- کویت میں امریکی وزیر خارجہ نے یہ اظہار خیال، اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی کے دورۂ عراق کے صرف چند روز بعد کیا ہے- صدر روحانی کے دورۂ عراق سے دنیا والوں پریہ واضح ہوگیا کہ تہران اور بغداد کے تعلقات علاقے اور حتی بین الاقوامی سیاسی سطحوں سے کہیں بالاتر ہیں- اس کے ساتھ ہی ٹرمپ انتظامیہ کے حکام منجملہ پامپئو نے ابھی اس مسئلے کو درک نہیں کیا ہے- مجموعی طور پر پامپئو کا یہ دورہ، سوائے بے بنیاد اور غیر منطقی دعووں کے اعادے اور ایران کی علاقائی پالیسیوں سے مقابلے کی سعی لا حاصل کے سوا اور کچھ نہیں تھا-