Mar ۲۶, ۲۰۱۹ ۱۶:۵۰ Asia/Tehran
  • جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضہ تسلیم ؛ ٹرمپ کا ایک اور شرمناک قدم

علاقے کے ممالک پر حملہ اور ان ممالک کی زمینوں پر قبضہ کرنا صیہونی حکومت کا پرانا طریقہ ہے- صیہونی حکومت نے جون انیس سو سڑسٹھ میں عرب ممالک کے ساتھ چھے روزہ جنگ میں جولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کرلیا تھا-

صیہونی حکومت کی پارلیمنٹ نے دسمبر انیس سو اکاسی میں اپنی سرحدوں کی سیکورٹی اور یہودی کالونیوں کو توسیع دینے کے لئے ایک بل منظور کرکے اس علاقے کو اپنی سرزمین میں ضم کرلیا تھا - یہ ایک ایسا بل تھا جسے اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے کسی بھی صورت تسلیم نہیں کیا- یہ اقدام بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد دوسوبیالیس کے خلاف تھا کیونکہ اس میں کھل کر جولان کو مقبوضہ علاقوں کا جزء قرار دیا گیا ہے اور اسرائیل سے اس سے پیچھے ہٹنے اوراس علاقے کو شام کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے- سلامتی کونسل نے اسی طرح دسمبر انیس سو اکاسی میں قرارداد چار سوستانوے جاری کرکے جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کے قبضے کی مخالفت کی اور اعلان کیا کہ مقبوضہ جولان کی پہاڑیوں پر اپنی حاکمیت اور قوانین نافذ کرنے پر مبنی اسرائیل کا فیصلہ کھوکھلا ہے اور عالمی سطح پر اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے- اس طرح بین الاقوامی قوانین کے مطابق جولان کی پہاڑیوں کا تعلق شام سے ہے- یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی عالمی برادری نے بھی تصدیق کی ہے- اس کے  باوجود اسرائیل نے اپنے اسٹریٹیجک اتحادی امریکہ کے ساتھ مل کر جولان کو قانونی طور پراسرائیل سے ملحق کرنے کی وسیع کوششیں شروع کردی ہیں - امریکی صدر ٹرمپ نے اس سلسلے میں اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے اور جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی حاکمیت کو تسلیم کرنے کے لئے پچیس مارچ کو ایک فرمان پر دستخط کردیئے- ٹرمپ کے اس فیصلے پر پہلے سے ہی کافی مخالفتیں ہوتی رہی ہیں- صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو نے اس فرمان پر دستخط کے وقت اعلان کیا کہ تل ابیب چھے روزہ جنگ کے دوران جولان کے مقبوضہ علاقے سے پیچھے نہیں ہٹے گا- ٹرمپ کا یہ اقدام کہ جو پوری طرح بین الاقوامی قوانین اور جولان کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی ہے ، واشنگٹن کی جانب سے تل ابیب کی بےچوں چرا حمایت کے تناظر میں انجام پایا ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ ٹرمپ حکومت نے صیہونیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں- ڈونالڈ ٹرمپ کا حالیہ اقدام ٹرمپ حکومت کی جانب سے چودہ مئی دوہزاراٹھارہ میں امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل ک‏ئے جانے کے بعد سامنے آیا ہے- امریکی سفارتخانے کی بیت المقدس منتقلی کی بھی عالمی سطح پرکافی مخالفت اور مذمت ہوئی تھی- شام نے امریکی صدر کی جانب سے جولان پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم کئے جانے کے فرمان پر دستخط پر اپنے پہلے ردعمل میں اس اقدام کی مذمت کی اور اسے شام کے اقتداراعلی کے خلاف کھلی جارحیت سے تعبیر کیا- شام کی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے کہا کہ امریکی صدر کا جولان کے الحاق کو تسلیم کرنے کا اقدام،  شام کی ارضی سالمیت اور اقتداراعلی کی کھلی خلاف ورزی شمار ہوتا ہے- دمشق کی نظر میں ٹرمپ کو اسرائیل کے غاصبانہ اقدامات کو قانونی حیثیت دینے کا کوئی حق اور اختیار نہیں ہے اور واشنگٹن کی جانب سے تل ابیب کی یہی ہمہ گیر اور بیش ازحد حمایتیں اس بات کا باعث بنی ہیں کہ امریکہ، عربوں کا سب سے بڑا دشمن بن گیا ہے-

اہم نکتہ یہ ہے کہ روس اور چین حتی یورپی یونین سمیت تمام بین الاقوامی طاقتیں نہ صرف جولان پر صیہونی حکومت کی حاکمیت و اقتدار کو تسلیم نہیں کرتیں بلکہ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پرعمل درآمد اور جولان کو شام کے حوالے کرنے کی خواہاں ہیں- اس سلسلے میں روس نے جو اس وقت شام اور مشرق وسطی میں ایک اہم کیرکٹر شمار ہوتا ہے، ٹرمپ کے اقدام کی مذمت کی ہے- ماسکو جس نے اس سے قبل اس فیصلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی قرار دیا تھا ،جولان کی پہاڑیوں کے بارے میں ٹرمپ کے نئے فیصلے پر دستخط کے بعد اس کے نتائج اور مشرق وسطی میں کشیدگی کی نئی لہرپیدا ہونے پر تشویش ظاہر کی ہے- 

روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے کہا کہ اس امرکے پیش نظر کہ اس طرح کے اقدامات ، قوانین کے دائرے سے باہر ہیں اور تمام بین الاقوامی اصولوں کو طاق پر رکھ کر انجام دیئے جارہے ہیں ، افسوس کہ ان کے نتا‏‏ئج صرف حالات کے مزید خراب ہونے کی صورت میں نکلیں گے- 

ٹرمپ کی جانب سے شام کی جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم کرنا ، عالمی سطح پر امریکہ کی تنہائی بڑھنے کا موجب اور اسرائیل کی جانب سے سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کی پابندی نہ کئے جانے کا ثبوت ہے-

ٹیگس