عراقی وزیر اعظم کے دورۂ سعودی عرب کے اغراض و مقاصد
عراق کے وزیر اعظم عادل عبدالمہدی نے گذشتہ روز سترہ اپریل کو ایک اعلی سطحی وفد کے ہمراہ سعودی عرب کا دورہ کیا اور اس ملک کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات اور گفتگوکی-
عراق اور سعودی عرب کے تعلقات نشیب و فراز سے بھرے ہوئے ہیں- اگرچہ عراق پر بعثی حکومت کے دور میں، عراق کے ساتھ سعودی عرب کے سفارتی تعلقات نہیں تھے لیکن سعودی عرب ان جملہ عرب ملکوں میں سے ہے کہ جو بعثی حکومت کے سقوط اور عراق میں نئے نظام کی تشکیل سے بھی راضی نہیں ہے کیوں کہ ریاض مشرق وسطی کے علاقے میں اپنی سیاست اور طاقت کو، مذہبی تشخص کی بنیاد پر دیکھتا ہے اور اس علاقے میں اہل سنت مسلمانوں کے مفادات کی حمایت کا مدعی ہے-
اس فیکٹر کے پیش نظر اور اس لحاظ سے بھی کہ عراق کے بعثی نظام کے سقوط کے بعد عراق کی طاقت کے ڈھانچے میں شیعوں کی پوزیشن مضبوط ہوئی اس لئے سعودی عرب اس ملک کے خلاف جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے تھا- اور اسی دائرے میں سعودی عرب نے عراق کو سیاسی لحاظ سے مستحکم ہونے سے روکنے، اور خاص طور پر مذہبی تشخص اور بعث پارٹی کی محوریت میں عراق کو عدم استحکام سے دوچار کرنے سے جیسے اقدامات کی حمایت کی اور عراق میں حکومت کو کمزور کرنے کی کوششیں انجام دیں-
تاہم عراق میں سیاسی و سیکورٹی عدم استحکام کا دور ختم ہونے اور اس ملک میں نئے سیاسی نظام کی تشکیل اور اسی طرح تہران کے ساتھ بغداد کے تعلقات کا مستحکم ہونا اس بات کا باعث بنا کہ گذشتہ برسوں کے دوران ریاض نے عراق کے سلسلے میں اپنی اسٹریٹیجی تبدیل کرلی اور عراق کے نئے سیاسی تشخص کو کمزور کرنے یا اس کو ماننے سے انکار کرنے کے بجائے اس کے ساتھ تعاون اور توافق کا راستہ اختیار کیا- دوسری جانب عراقی حکومت نے بھی کہ جو علاقائی استحکام اور پڑوسی ملکوں کے ساتھ کشیدگی سے دوری کے اصول پر کاربند ہے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کا خیر مقدم کیا- اور عراقی وزیر اعظم عبدالمہدی کے دورۂ سعودی عرب کا بھی اسی تناظر میں جائزہ لیا جا سکتا ہے-
عبدالمہدی نے اپنا یہ دورہ دونوں ملکوں کے درمیان پائی جانے والی بے اعتمادی میں کمی لانے اور اسی طرح ریاض کے ساتھ اقتصادی تعلقات مستحکم کرنے کی غرض سے انجام دیا ہے- اگرچہ سعودی عرب اور عراق کی کوشش ہے کہ دوطرفہ تعلقات میں پائی جانے والی کشیدگی کم کریں لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں کے تعلقات پر بے اعتمادی کی فضا حکمفرما ہے- اسی سلسلے میں ثامر السہبان کہ جو عراق اور سعودی عرب کے درمیان پچیس سال کے سفارتی تعلقات منقطع ہونے کے بعد عراق میں سعودی عرب کے سفیر بن کر آئے تھے، ایک سال سے بھی کم ہی عرصے تک اس ملک میں سفیر رہ سکے- کیوں کہ وہ عراق کے داخلی امور میں مداخلت منجملہ 2016 کے حکومت مخالف مظاہروں میں ملوث ہونے اور عراق کی عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی کے خلاف موقف اپنانے کے سبب، حکومت بغداد کی درخواست اس ملک سے نکال دیئے گئے- ان واقعات سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ بغداد اور ریاض کے تعلقات میں اعتماد کی فضا حاکم نہیں ہے- اس کے علاوہ ، داعش دہشت گرد گروہ کے بعد عراق کی اہم ترین ترجیح اس ملک کی تعمیر نو ہے - اسی سلسلے میں عراق نے اپنے ملک میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کیا ہے- اور گذشتہ روز ملک سلمان کے ساتھ عبدالمہدی کی ملاقات میں بھی فریقین کے درمیان اقتصادی شعبے میں باہمی تعاون کی تیرہ دستاویزات پر دستخط کئے گئے ہیں-
ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ عادل عبدالمہدی کی کوشش ہے کہ وہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کریں اور عراق کی علاقائی پوزیشن کو مستحکم اور پائیدار بنائیں- ریاض اور تہران کے سفارتی تعلقات 2016 سے اب تک منقطع ہیں اور دونوں ممالک کے تعلقات میں غیر معمولی کشیدگی پائی جاتی ہے- عراق کے وزیر اعظم نے ریاض کے دورے سے چند روز قبل تہران کا بھی دورہ کیا تھا اور اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام سے ملاقات اور گفتگو کی تھی- بغداد اور ریاض کے تعلقات کے برخلاف بغداد اور تہران کے تعلقات پر اعتماد کی فضا حکمفرما ہے اور دونوں ملکوں میں خوشگوار تعلقات قائم ہیں - عراقی حکومت کی کوشش ہے کہ تہران اور ریاض کے تعلقات میں کشیدگی کم کرنے کے لئے ثالثی انجام دے- اسی سبب سے عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد الحبوسی نے کہا ہے کہ بغداد عنقریب ہی، سعودی عرب، ایران، شام ، ترکی ، اردن اور کویت کی شرکت سے پڑوسی ملکوں کی میزبانی کے فرائض انجام دے گا-