فلسطین کے قومی محاذ کی تشکیل کا مقصد، سنچری ڈیل سے مقابلے کے لئے عملی قدم
فلسطین کے مزاحمتی گروہوں نے امریکی منصوبے سنچری ڈیل سے مقابلے کے لئے قومی محاذ برائے فلسطین تشکیل دیا ہے-
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے داماد اور مشیر جرڈ کوشنر نے ابھی تک سنچری ڈیل منصوبے کا با ضابطہ طور پر اعلان نہیں کیا ہے تاہم اس منصوے کے اہم حصوں پر عملی طور پر کام شروع ہوگیا ہے- بیت المقدس کو مکمل طور پر یہودی بنانا، دو ریاست کی تقسیم، یہودی کالونیوں کو سرکاری طور پر تسلیم کرنا ، اسرائیل کو جولان کی پہاڑیاں سونپا جانا اور اسی طرح نام نہاد امن مذاکرات سے پناہ گزینوں کے مسئلے کو ختم کرنا، یہ سب سنچری ڈیل منصوبے کا حصہ ہیں-
بیت المقدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر متعارف کرانا اور پھر امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنا ، قدس کو مکمل طور پر یہودی بنانے کی راہ میں اٹھایا جانے والا اہم قدم ہے- یہودی کالونیوں کی تعمیر کا کام بھی سلامتی کونسل کی قرارداد تیئیس چونتیس کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے پوری تیزی کے ساتھ جاری ہے- فلسطینی پناہ گزینوں کا مسئلہ بھی، سنچری ڈیل منصوبے میں ذکر کیا گیا ہے۔ اسی بنیاد پر مارچ 2018 سے وطن واپسی مارچ کے مظاہروں کا آغاز ہوا ہے جو ابھی تک جاری ہے اور اب تک ان مظاہروں میں دو سو بہتر فلسطینی شہید ہوچکے ہیں-
ایسی حالت میں کہ سنچری ڈیل منصوبے پر عملدرآمد کے لئے بعض عملی اقدامات انجام پاچکے ہیں لیکن اس سلسلے میں فلسطینی گروہوں میں لچک کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے- وہ چیز جو اب تک سنچری ڈیل کے مقابلے میں انجام پائی ہے، وطن واپسی مظاہرے ہیں کہ جو اسرائیل کے توسط سے سرکوب کئے گئے ہیں اور عالمی برادری نے بھی اسرائیل کے تشدد کے مقابلے میں کوئی اقدام انجام نہیں دیا ہے-
فلسطین کے سیاسی گروہوں نے اس نسل پرستانہ منصوبے سے مقابلے کے لئے کوئی خاص اقدام نہیں کیاہے اور قومی محاذ برائے فلسطین کی تشکیل کا اقدام ، جو گذشتہ روز ستائیس اپریل کو انجام پایا اس سلسلے میں اٹھایا جانے والا پہلا سیاسی قدم ہے- اس کے ساتھ ہی یہ قومی محاذ بھی محض فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس اور جہاد اسلامی کے تعاون سے تشکیل پایا ہے اور تحریک فتح اور اس کے اتحادی اس محاذ میں شریک نہیں ہیں-
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکہ نے عالمی قوانین سے جو بے توجہی برتی ہے اور جس طرح سے وہ یکطرفہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں اس کے سبب، وہ فلسطینی گروہوں خاص طور پر فتح اور مزاحمتی گروہوں کے باہمی اختلافات سے بھی سنچری ڈیل منصوبے کو آگے بڑھانے میں فائدہ اٹھا رہے ہیں- اس وقت تحریک حماس اور جہاد اسلامی نے اپنی پوری طاقت یکجا کرتے ہوئے سنچری ڈیل منصوبے سے مقابلے کے لئے اپنے ٹھوس عزم کا اظہار کیا ہے-
اسی سلسلے میں حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل نے ناپاک امریکی منصوبے سینچری ڈیل پر عملدرآمد کی بابت سخت خبردار کیا ہے۔ استنبول میں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد مشعل نے کہا کہ امریکہ اور صیہونی حکومت نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اندرونی اور بیرونی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سینچری ڈیل پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔ حماس کے سابق سربراہ نے کہا کہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اور امریکی سفارت خانے کی منتقلی، ناپاک سینچری ڈیل منصوبے کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے ناپاک سینچری ڈیل کو کامیاب بنانے کے لیے فلسطینیوں کے عالمی امدادی ادارے انروا کے فنڈز بند اور شام کے علاقے جولان پر اسرائیل کے تسلط کو تسلیم کیا ہے۔
اس ناپاک منصوبے کے تحت بیت المقدس، اسرائیل کے حوالے کر دیا جائے گا، فلسطینیوں کو اپنے آبائی علاقوں میں واپسی کا حق نہیں ہو گا اور اسرائیل کے ناجائز قبضے سے باقی بچ جانے والے غرب اردن اور غزہ کا علاقہ ہی فلسطینیوں کی ملکیت ہو گا۔ سینچری ڈیل، امریکہ کا ایک نیا منصوبہ ہے جسے مسئلہ فلسطین کو نابود کرنے کی غرض سے سعودی عرب سمیت بعض عرب ملکوں کے تعاون سے تیار کیا گیا ہے-
بلا شبہ اگر عالم اسلام میں اختلاف و افتراق نہ ہوتا اور بعض عرب ممالک ٹرمپ کی پالیسیوں کے تابع نہ ہوتے تو آج ٹرمپ اور نتنیاہو فلسطین اور شام کی سرزمینوں پر قبضے اور اسرائیل کے غاصبانہ اہداف کو آگے بڑھانے میں اس حد تک جسور نہیں ہوتے -