May ۰۵, ۲۰۱۹ ۱۸:۵۳ Asia/Tehran
  • ایران کے ساتھ تعاون جاری رکھنے پر روس کی تاکید

امریکہ، ایران کا ایٹمی معاہدہ ختم کرنے کے مقصدسے مئی 2018 کو اس معاہدے سے نکل گیا- ٹرمپ حکومت نے دو مرحلے اگست اور نومبر 2018 میں ایران کے خلاف ایک بار پھر ایٹمی پابندیاں عائد کردیں اور ابھی بھی یہ پابندیاں عائد کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی سلسلے میں واشنگٹن نے ایران کی ایٹمی سرگرمیوں سے متعلق کچھ چھوٹ بھی ختم کردی ہے-

 امریکہ کے اس غیر قانونی اقدام پر ایران کے ایٹمی شراکت داروں نے مخالفت کی ہے- اسی سلسلے میں روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے ہفتہ چار مئی کو کہا کہ امریکہ کی دھمکیاں اور پابندیاں ، ایران اور روس کے تعاون پر اثرانداز نہیں ہوسکتیں-

ریابکوف نے کہا کہ روس ، امریکہ کی جانب سے پابندی کی دھمکی کے باوجود ایران کے ساتھ تمام شعبوں منجملہ ایٹمی شعبے میں اپنے تعاون کو آگے بڑھانے کا عزم کئے ہوئے ہے- روس کے نائب وزیر خارجہ نے ایران اور روس کے خلاف پابندی کے تجربے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ماسکو اور تہران کبھی بھی واشنگٹن کےسامنے نہیں جھکیں گے-

ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرنے سے امریکہ کا حقیقی مقصد ایران کی پرامن ایٹمی سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ہے کہ جو ایٹمی معاہدے اور سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کے دائرے میں تسلیم کیا گیا ہے- 

ٹرمپ حکومت یہ چاہتی ہے کہ آخرکار ایران کی ہر قسم کی پر امن ایٹمی سرگرمیوں منجملہ بوشہر کے ایٹمی بجلی گھر اور حتی تہران کے تحقیقاتی ری ایکٹر پر بھی پابندی لگادے کہ جس سے ریڈیو میڈیسن بنانے کے لئے استفادہ کیا جاتا ہے - خیال رہے کہ تہران کے تحقیقاتی ایٹمی ری ایکٹر سے ریڈیو میڈیسن بنائی جاتی ہیں جو کینسر کے علاج سمیت مختلف بیماریوں کے علاج اور تشخیص کے لئے کام میں لائی جاتی ہیں۔ 

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایران کی ایٹمی سرگرمیاں کہ جو جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے کی مکمل نگرانی میں انجام پا رہی ہیں، اس ادارے کے قوانین کے برخلاف ہیں؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب منفی ہے- چنانچہ ٹرمپ انتظامیہ سے یہ سوال کرنا چاہئے کہ اسے یہ اختیار کس بنیاد پر حاصل ہے کہ وہ ایران کی پرامن اور قانونی ایٹمی سرگرمیوں کو بند کرے اور جو ممالک اقوام متحدہ کی اجازت سے، ایران کے ساتھ ایٹمی تعاون کر رہے ہیں ان پر بھی پابندیاں عائد کردے؟  کیا امریکیوں کے پاس اس بنیادی سوال کا کوئی جواب ہے؟ درحقیقت امریکہ ابھی بھی خود کو عالمی پولیس مین سمجھ رہا ہے اور خود کو یہ حق دیتا ہے کہ کسی قانونی دلیل کے بغیر اور صرف اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے دیگر ملکوں پر دباؤ ڈالے اور ان کو ڈرائے دھمکائے- 

ماسکو نے بارہا امریکہ کی یکطرفہ پسندی اور اس کے ظالمانہ رویے پر کڑی تنقید کی ہے اور اسے آج کی دنیا میں نا قابل قبول قرار دیا ہے- روسی صدر ولادیمیر پوتین نے اس بات کا اعلان کرتے ہوئے کہ اب سرد جنگ کے دور کے دو قطبی نظام کا ڈھانچہ تباہ ہوچکا ہے کہا کہ امریکہ کا یہ رویہ امن و استحکام کو نابود کر رہا ہے اور اس وقت دنیا کی سلامتی کے لئے خطرہ بنا ہوا ہے، اور ملکوں کے خلاف اقتصادی و سیاسی دباؤ ڈال رہا ہے کہ جو بین الاقوامی قوانین کے منافی ہے- پوتین کا یہ اشارہ ٹرمپ کی ان پالیسیوں اور مواقف کی جانب ہے کہ جس میں اس نے صراحتا امریکہ کی برتری اور دیگر ملکوں کو واشنگٹن کی پالیسیوں کی پیروی کرنے اور امریکی مفادات کو ترجیح دینے کی بات کہی ہے- 

اسی سبب سے ماسکو نے ایران کے خلاف امریکہ کی نئی ایٹمی پابندیوں پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے، ایران کی پرامن ایٹمی سرگرمیوں کے شعبے میں تہران کے ساتھ تعاون جاری رکھنے پر تاکید کی ہے- مسلمہ طور پر یہ ٹرمپ حکومت کی ایک بڑی ناکامی ہے کہ دیگر حکومتیں، واشنگٹن کے آمرانہ اور ظالمانہ فیصلوں اور اقدامات کی پیروی کرنے کے بجائے ان کا مقابلہ کر رہی ہیں اور پرامن ایٹمی تعاون کے شعبے میں ایران کے ساتھ قانونی تعاون جاری رکھنے پر تاکید کر رہی ہیں-     

ٹیگس