امریکہ پر اعتماد نہیں ، یورپ میں فیصلے کی قوت نہیں: وہ حقیقت جو تبدیل نہیں ہوئی
گذشتہ چار برسوں سے دو نظریوں کو آزمایا جا رہا ہے ، ایک امریکہ پر عدم اعتماد کا نظریہ ہے اور دوسرا خودمختاری ثابت کرنے میں یورپ کی کمزوری کا نظریہ ہے-
اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب مجید تخت روانچی نے اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام سے امریکی صدر ٹرمپ کی ملاقات اور مذاکرات کی درخواست کے بارے میں امریکہ کے این بی سی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ : سب سے پہلے انھیں اس سوال کا جواب دینا چاہئے کہ وہ مذاکرات سے باہر کیوں نکلے کیونکہ ہم ایٹمی سمجھوتے کے مشترکہ کمیشن کے دائرے میں ایٹمی سمجھوتے کے تمام اراکین سے مذاکرات کر رہے تھے جس میں امریکہ بھی شامل تھا تاہم انھوں ( ٹرمپ ) نے اچانک مذاکرات سے باہر نکلنے کا فیصلہ کرلیا- تو پھر وہ کیوں اس سوال کا جواب دیئے بغیر ایرانیوں کے ساتھ مذاکرات کا نیا دور شروع کرنے کی پیشکش کر رہے ہیں؟
روانچی نے اس انٹرویو میں یورپ کی بدعہدی کے بارے میں بھی بات کی - انھوں نے ایٹمی سمجھوتے کے ذیل میں بعض اقدامات کو روکنے کے ایران کے فیصلے اور پٹرولئیم و بینکنگ کے سلسلے میں وعدوں پر عمل درآمد کی غرض سے یورپ کو دومہینے کی مہلت دینے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ : جو چیز ہمارے لئے اہم ہے وہ ایران کا قومی مفاد ہے - ہم سمجھوتے میں خود سے متعلق حصے کے پابند رہے ہیں- ایٹمی سمجھوتہ کم و بیش ایک متوازن سمجھوتہ تھا لیکن جب امریکی حکومت معاہدے سے باہر نکل گئی تو اس توازن کو شدید نقصان پہنچا- یورپیوں نے بھی ہم سے کہا کہ ایٹمی سمجھوتے سے باہر نکلنے میں جلدی نہ کریں- ہم نے بھی ان کی تجویز قبول کرلی اور گذشتہ ایک برس سے ان کی جانب سے عملی و معتبر جواب کا انتظار کرتے رہے-
یورپی یونین، ایٹمی سمجھوتے کے تحفظ کے لئے تمام کوششیں انجام دینے کا دعوی کرتی رہی ہے تاہم اس کے اقدامات زیادہ تر ظاہری پہلو کے حامل رہے ہیں-
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایک سال پہلے ملک کی مجریہ ، مقننہ اورعدلیہ کے حکام سے خطاب میں اس نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ یورپ نے با رہا ثابت کردکھایا ہے کہ وہ حساس ترین مواقع پر امریکہ کا ساتھ دیتا ہے ، فرمایا : ایٹمی مذاکرات میں فرانس کے وزیرخارجہ کی بری حرکت اور امریکہ کے ساتھ اچھے پولیس مین اور برے پولیس مین کا کردار تقسیم کرلینا اور ایٹمی سمجھوتے کی بنیاد پر یلوکیک کی خریداری کے حق کے سلسلے میں برطانوی حکومت کی جانب سے رکاوٹ ڈالنا ، یورپ کا امریکہ کا ساتھ دینے کی کچھ مثالیں ہیں ، یورپی باتیں تو کرتے ہیں لیکن اب تک یہ دیکھنے میں نہیں آیا کہ کبھی وہ حقیقی طور پر امریکہ کے سامنے ڈٹے ہوں۔
امریکہ نے ایران کی میزائلی صلاحیتوں کے خطرہ ہونے یا انسانی حقوق کے موضوع سمیت دیگر تمام مسائل میں ایران کے خلاف جو بھی دعوے کئے ہیں ، یورپ نے سب میں اس کا ساتھ دیا ہے - اس وقت ٹرمپ نے یورپ سے اسی توقع کے تحت ایٹمی سمجھوتے کا انجام یورپ کے حوالے کردیا ہے- شاید بعض لوگوں کے بقول ؛ ٹرمپ کے اقدامات کو تو جنون اور حماقت کانتیجہ کہا جا سکتا ہے تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یورپ بھی اس غلطی کا مرتکب ہوا ہے؟ جبکہ یورپی یونین نے امریکہ کا غیرمنطقی ساتھ دے کر نقصان اٹھایا ہے-
لوبلاگ انسٹی ٹیوٹ نے اس سلسلے میں ایک تجزیے میں ایٹمی سمجھتو کے ناکام ہونے کے انجام پرانتباہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ : یورپ نے اس سمجھوتے کے بعد ایک عالمی بازیگر کے عنوان سے اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے لیکن وہ امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کی صورت میں اپنی خودمختاری سے ہاتھ دھو بیٹھے گا- یورپی یونین کو یہ حقیقت تسلیم کرلینا چاہئے کہ بریسلز اور واشنگٹن کے اقدار و مفادات میں گہرا فاصلہ ہے جو اس وقت ایٹمی سمجھوتے کے سلسلے میں نظریات کے فرق سے واضح ہوگیا ہے- اسی وجہ سے یورپ کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے اور اس سے بھی بڑھ کر اپنی حیثیت و اعتبار کے دفاع میں ایٹمی سمجھوتے کی زبانی حمایت سے بڑھ کر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے- جیسا کہ ایران کے نائب وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے تہران میں برطانوی وزارت خارجہ میں پولیٹکل ڈائرکٹر ریچرڈ مور سے ملاقات میں تاکید کے ساتھ کہا کہ : یورپ کو ایران کی جانب سے اپنے اقدامات میں مرحلہ وار کمی لانے کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے-