سعودی عرب میں بڑی جنگ کی دستک
یمن کی تحریک انصار اللہ کی سیاسی کونسل کے رکن محمد البخیتی نے کہا ہے کہ بڑی جنگ کا وقت نزدیک ہے-
یمن کے خلاف سعودی اتحاد کی جنگ کو اکیاون واں مہینہ پورا ہونے کو ہے- اس جنگ کی مجموعی صورتحال گذشتہ پچاس مہینوں میں اس طرح سے رہی ہے کہ سعودی عرب اور اس کےاتحادی ممالک نے یمن کے خلاف جنگ شروع کی اور مسلسل حملے کئے جبکہ انصاراللہ اور یمنی فوج نے اس کے مقابلے میں صرف اپنا دفاع کیا اور سعودی اتحاد کے مقابلے میں ڈٹے رہے اور بسا اوقات سعودی عرب اور متحدہ امارات کے فوجیوں کو نقصان بھی پہنچایا - ان حالات میں سعودی اتحاد کے جنگی طیاروں نے روزانہ یمن کے مختلف علاقوں پر بمباری کی۔ اس طرح سے کہ ان جارحانہ حملوں اور محاصرے کے نتیجے میں یمن میں رونما ہونے والا انسانی المیہ، گذشتہ عشروں کے دوران کا سب سے بڑا انسانی المیہ ہے اور اسی طرح یمن کی اسّی فیصد تنصیبات بھی مکمل طور پر تباہ ہوگئی ہیں- گذشتہ برسوں میں جنگ کے دوران انصاراللہ اور یمنی فوج کی ساری توجہ دارالحکومت صنعا اور اپنے زیر کنٹرول بعض علاقوں کی حفاظت کرنا تھا-
اس جنگ کا پانچواں سال شروع ہونے کے ساتھ ہی ، جنگ کی صورتحال کافی تبدیل ہوگئی ہے- انصاراللہ اور یمنی فوج کی مزاحمت، سعودی حملوں کے مقابلے میں نتیجہ بخش رہی ہے اور اب انصاراللہ اور یمن کی فوج نے تازہ حملے شروع کردیئے ہیں- اب انصاراللہ اور یمنی فوج کے میزائل اور ڈرون طیاروں کی صلاحیت اور اسی طرح انٹلی جنس کاروائیوں میں بہت حد تک اضافہ ہوا ہے -
یمن کی فضائیہ کے ترجمان عبداللہ جفری اس سلسلے میں کہتے ہیں: یمن کے میزائلوں اور ڈرون طیاروں نے یمن کی جنگ کے توازن کو تبدیل کردیا ہےاور سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات عنقریب ہی جنگ روکنے پر مجبور ہوجائیں گے- اس صورتحال کا اہم ترین پیغام یہ ہے کہ اب جنگ یمن کی حدود میں محدود نہیں رہے گی بلکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی- یہ صورتحال ممکن ہے یمن کے خلاف جنگ میں آل سعود اور آل نہیان کو دیگر زمانوں سے زیادہ گوشہ نشیں کردے-
اہم سوال یہ ہے کہ کیا چیز باعث بنی ہے کہ جنگ یمن کی صورتحال تبدیل ہوگئی ہے اور جنگ کا توازن یمن کے حق میں تبدیل ہوگیا ہے- اس تعلق سے تین اہم عوامل کی جانب اشارہ کیا جا سکتاہے
پہلا عامل یا وجہ، انصاراللہ یمن کی معنوی طاقت اور خدا پر ایمان اور بھروسہ ہے کہ جس نے اس یقین کے ساتھ سعودی اتحاد کے مقابلے میں استقامت کی اور وہ غیر مساوی اور غیر منصفانہ حالات میں مذاکرات کے لئے تیار نہیں ہوئے اور مغرب کے جدید ہتھیاروں سے مسلح دشمن کے مقابلے میں، تسلیم نہیں ہوئے- انصاراللہ کا یہی ایمان اور عقیدہ یمنی فوج میں بھی پیدا ہوا، کہ جو فوج اور یمن کی عوامی کمیٹیوں کے درمیان سعودی اتحاد کے خلاف متحد ہونے اور اس کے مقابلے میں استقامت کا سبب بنا-
دوسرا عامل جنگ کا طولانی ہونا ہے -جنگ کے طولانی ہونے سے جہاں آل سعود اور اس کے اتحادی غیض و غضب میں مبتلا ہوگئے وہیں رائے عامہ نے مختلف وجوہات کی بنا پر سعودی اتحاد کے خلاف اپنا احتجاج تیز کردیا ہے - جنگ کے طول پکڑنے کے نتیجے میں انصاراللہ یمن اور یمنی فوج کے لئے موقع فراہم ہوا کہ وہ اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کریں- اسی سلسلے میں یمن کے ایک فوجی ذریعے نے اخبار القدس العربی کے ساتھ انٹرویو میں کہا ہے کہ حوثیوں نے جنگ کے طول پکڑنے اور محاصرے کے باعث موقع سے فائدہ اٹھایا اور اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کیا ہے جبکہ سعودی عرب نے جو کچھ اس کے اختیار میں تھا ، آزمایا لیا ہے لیکن وہ اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے بلکہ الٹے اس نے اپنے لئے، جہنم کا در کھول لیا ہے -
اور تیسرا عامل سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان اختلافات میں شدت پیدا ہونا ہے متحدہ عرب امارات نے کہ جو یمن کے خلاف اتحاد میں سعودی عرب کے بعد اہم ترین ملک ہے، گذشتہ ایک سال کے دوران جنگ یمن میں کامیابی حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے- متحدہ عرب امارات کہ جس نے منصور ہادی کے دوبارہ اقتدار میں لائے جانے کے سلسلے میں سعودی عرب سے اختلاف کرلیا ہے ، گذشتہ ایک سال میں اس نے جنوبی یمن اور اس کے اسٹریٹجیک علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے اور اس میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کی بہت کوشش کی ہے-
ان تمام صورتحال کے مدنظر ہی، یمن کی تحریک انصار اللہ کی سیاسی کونسل کے رکن محمد البخیتی نے کہا ہے کہ ایک بڑی جنگ عنقریب ہوگی اور یہ بڑی جنگ بھی سعودی عرب کی زمین پر لڑی جائے گی-