نئے میزائلی معاہدے کے لئے ٹرمپ کی شرط
امریکہ کی جانب سے دو اگست دوہزار انیس سے انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلئر فورس معاہدے آئی این ایف سے باہر نکلنے کے اعلان نے دنیا کو عدم استحکام کے ایک نئے دور میں پہنچا دیا ہے- واشنگٹن کی کوشش ہے کہ اس طرح اپنے مفادات اور مطالبات کے مطابق نیا اسلحہ جاتی معاہدہ تشکیل دے-
اس سلسلے میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک ایسے معاہدے کا مطالبہ کیا ہے جس میں اس کے بین الاقوامی حریفوں کو بھی شامل کیا جائے- ٹرمپ نے کہا کہ : ایٹمی میزائلوں کے سلسلے میں کسی بھی طرح کے نئےمعاہدے اور سمجھوتے میں روس اور چین کو بھی شامل کیا جانا چاہئے-
واشنگٹن کی نگاہ میں چین کو بھی جو نہایت تیزی سے درمیانی فاصلے اور کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائل سسٹم کو اپڈیٹ کرنے میں مشغول ہے، نئے میزائلی سمجھوتے کے تحت لانا چاہئے- جبکہ بیجنگ کا خیال ہے کہ چین کا اقدام اس ملک کی فوج کے لئے بعض قید و شرط کا باعث بنے گا- روس کا بھی خیال ہے کہ فرانس ، برطانیہ ، ہندوستان اور پاکستان جیسے دیگر ایٹمی ممالک کو بھی چین کے ساتھ اس معاہدے کے تحت لانا چاہئے لیکن ایسا نظر آتا ہے کہ نہ ہی فرانس اور برطانیہ اور نہ ہی چین ، ہندوستان اور پاکستان جیسے ایٹمی میزائلی طاقت کے حامل ممالک ان ہتھیاروں کے سلسلے میں قید و شرط کو قبول کریں گے-
اس طرح آئی این ایف معاہدے کی منسوخی اور ایٹمی میزائلی صلاحیت کے حامل دیگر بڑے ممالک کے نئے میزائلی معاہدے میں شامل ہونے سے انکار کے پیش نظر کم فاصلے اور درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے ایٹمی میزائلوں کی توسیع کا مستقبل اس وقت ہمیشہ سے زیادہ بہتر نظر آرہا ہے-
امریکہ نے جو آئی این ایف معاہدے سے نکلنے کے لئے اپنی جانب سے معین کردہ مہلت ختم ہونے کا منتظر تھا ، نہایت تیزی سے میزائلوں کو توسیع دینے اور اپ گریڈ کرنے کے لئے اپنے آئندہ کے پروگرام کا اعلان کردیا ہے-
مجموعی طور پر امریکہ کا مقصد اسلحہ جاتی معاہدے سے بلا قید و شرط باہر نکلنا ہے تاکہ وہ پوری آزادی سے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو توسیع دے سکے اور انھیں تعینات کر سکے- اس سلسلے میں امریکی وزارت جنگ پینٹاگون نے دواگست کو اعلان کر دیا کہ آئی این ایف معاہدے سے امریکہ کے باہر نکلنے کے ساتھ ہی اپنے جدید میزائلی پروگرام کو بھی توسیع دے گا-
پینٹاگون نے اعلان کیا ہے کہ : امریکہ روایتی میزائلوں کو اپ گریڈ اور توسیع دینا چاہتا ہے جو اس سے پہلے آئی این ایف معاہدے کے مطابق ممنوع تھے- ٹرمپ کے دور میں امریکہ ، اپنے نئے ایٹمی ڈاکٹرائن کے تحت جدید میزائلوں کی توسیع اور تعیناتی نیز کم طاقت کے ایٹمی ہتھیار بنانے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے-
فطری طور پر روس بھی امریکہ کے اصلی ایٹمی و میزائلی حریف کی حیثیت سے واشنگٹن کے اقدامات کے مقابلے میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے گا اور اس کی کوشش ہوگی کہ جدید میزائلی پروگراموں کے ذریعے امریکہ کے مقابلے میں اپنی طاقت و توانائی کو برقرار رکھے- اس طرح اگرچہ روس کے صدر ولادمیرپوتین نے پہلے کہا تھا کہ اگر آئی این ایف معاہدہ منسوخ ہوا تو ماسکو دنیا کی نئی جیئوپولیٹک صورت حال میں اسلحے کی دوڑ میں شامل ہوئے بغیر اسٹریٹیجک سیکورٹی قائم کرے گا اور اپنے مفادات پورے کرے گا لیکن ایسا نظر آتا ہے کہ واشنگٹن کے بڑھتے ہوئے خطرات اور دھمکیاں ، روس کو امریکہ کے ساتھ اسلحے کی دوڑ میں شامل ہونے پرمجبور کردیں گی- یوں توقع ہے کہ ماسکو بھی بلیسٹیک اور ایٹمی وار ہیڈز کے حامل کروز میزائلوں کی توسیع کے لئے اقدام کرے گا کہ جو پہلے آئی این ایف معاہدے کے تحت ممنوع تھے- انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلئر فورس معاہدے سمیت ہتھیاروں کے کنٹرول کے اہم معاہدوں کو ختم ہونے سے دنیا کو خوفناک مستقبل کا سامنا ہے - اب اس کے بعد بڑی ایٹمی طاقتیں بلاکسی قید و شرط کے اپنے تباہ کن ہتھیاروں بالخصوص ایٹمی میزائلوں کی توسیع و تعیناتی کا سلسلہ شروع کر دیں گی اور اس طرح مستقبل میں دنیا ایٹمی جنگ کی دہلیز پر ہو گی -
اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری آنٹونیوگوٹرس آئی این ایف معاہدے کی منسوخی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کام سے ایٹمی میزائلوں کا خطرہ کم ہونے کا نہیں بلکہ بڑھنے کا امکان ہے- جو ہو رہا ہے اس سے قطع نظرتمام فریقوں کو چاہئے کہ ثبات و استحکام کو درہم برہم کرنے والے اقدامات سے اجتناب کریں اور اسلحوں کے عالمی کنٹرول کے لئے ایک نئے مشترکہ راستے کے سلسلے میں بالاصرار ایک سمجھوتہ کریں-