Sep ۱۹, ۲۰۲۵ ۲۲:۲۵ Asia/Tehran
  • سلامتی کونسل، ایران کے خلاف پابندیاں لوٹانے پر حامیوں اور مخالفوں میں شدید بحث

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں آج ایک قرارداد کا مسودہ پیش کیا گیا تا کہ قرارداد 2231 کے تحت ایران پر سے ہٹائی گئی پابندیوں کو لوٹانے (اسنیپ بیک مکینزم) کو ملتوی کردیا جائے۔

سحرنیوز/ایران:   امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے سفارتکاری کے راستے کو بند کرتے ہوئے جنوبی کوریا کی جانب سے پیش کردہ اس قرارداد کو ویٹو کردیا۔

جمعے کی صبح 19 ستمبر کو سلامتی کونسل کے اجلاس میں جنوبی کوریا کی جانب سے قرارداد کا مسودہ پیش کیا گیا تا کہ اسنیپ بیک کو ملتوی کرتے ہوئے ایران پر عائد سلامتی کونسل کی پابندیوں کو لوٹانے کا راستہ فی الحال بند کردیا جائے۔

اس قرارداد کی منظوری کے لیے 9 ووٹوں کی ضرورت تھی جس کے حق میں چین، روس، پاکستان اور الجزائر نے ووٹ ڈالا لیکن برطانیہ، فرانس، امریکہ، سیئرالیون، اسلووینیا، ڈینمارک، یونان، پنامہ اور صومالیہ نے اس کے خلاف ووٹ دیا جبکہ گویان اور جنوبی کوریا نے رائے دہی میں حصہ نہیں لیا۔

ووٹنگ کے موقع پر امریکی مندوب ڈوروتھی شی نے اس قرارداد کے منظور نہ ہونے پر خوشی کا اظہار کیا اور ایران پر ایٹمی معاہدے پر عدم پابندی کا الزام عائد کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ایران میں موجود زیادہ سطح کے افزودہ یورینیم کی ان کے بقول کوئی توجیہ نہیں ہے۔

برطانوی مندوب باربرا ووڈوارڈ نے ووٹنگ کے بعد اس قرارداد کی عدم منظوری کو اسنیپ بیک مکینزم کو فعال کرنے کی جانب اہم قدم قرار دیتے ہوئے دعوی کیا کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے 28 اگست کو سلامتی کونسل کو اطلاع دے دی تھی کہ ایران ان کے بقول دانستہ طور پر اپنی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ میں چین کے مستقل مندوب فو کونگ نے سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یورپی ٹرائیکا حالات کی کشیدگی میں اضافہ کرنا چاہتی ہے اور یورپی ممالک یہ بھول بیٹھے ہیں کہ معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والا فریق امریکہ تھا اور یہ امریکہ ہی تھا جس نے ایران پر فوجی حملہ کرکے مذاکراتی عمل کو بگاڑ دیا۔

چین کے مستقل مندوب نے زور دیکر کہا کہ بیجنگ اسنیپ بیک مکینزم کو مسترد کرتا ہے کیونکہ ایسا کوئی بھی اقدام سفارتکاری کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔

روس کے نمائندے وازیلی نبنزیا نے ایران پر امریکہ اور یورپی ممالک کے دباؤ اور سلامتی کونسل کی پابندیوں کو لوٹانے کی دھمکی کو غنڈہ گردی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یورپی ٹرائیکا کو ایٹمی معاہدے کی کوئی فکر نہیں۔

انہوں نے کوریا کی جانب سے پیش کردہ قرارداد میں ووٹنگ میں خود کوریا کی عدم شرکت پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ تعجب اس بات پر ہے کہ جنوبی کوریا نے مغربی ممالک کے تباہ کن رویے کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک کے ایران مخالف دعوے ایسی حالت میں کيے گئے ہیں کہ امریکہ سن 2018 میں یکطرفہ طور پر ایران کے ساتھ جامع ایٹمی معاہدے سے نکل گیا تھا اور یورپی ممالک نے بھی اس کے بعد منافقانہ رویہ اپناتے ہوئے ایک جانب ایران کے مطالبات پورے کرنے کے دعوے کیے تاہم  عملی طور پر ایران پر مسلسل پابندیاں عائد کرکے کھل کر امریکہ کا ساتھ دیا۔

ٹیگس