ایٹمی معاہدے کے تحفظ پر موگرینی کے جانشین اور یورپی ٹرائیکا کی تاکید
یورپی یونین اور یورپی ٹرائیکا یعنی جرمنی ، فرانس اور برطانیہ، گروپ فور پلس ون کے رکن کی حیثیت سے ہمیشہ ایٹمی معاہدے کی حمایت اور اس پر عملدرآمد کے مدعی رہے ہیں-
اس کے باوجود یورپ کو اس وقت ایٹمی معاہدے کی حفاظت کے سلسلے میں بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے- یہی مسئلہ بریسلز اور یورپی ٹرائیکا کی جانب سے ایک بار پھر ایٹمی معاہدے کے تحفظ پر تاکید کا سبب بنا ہے-
اسی سلسلے میں جوزف بورل Josep Borrell نے کہ جو عنقریب ہی فیڈریکا موگرینی کی جگہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کا عہدہ سنبھالنے والے ہیں، ایٹمی معاہدے کے تحفظ کے لئے کوششیں جاری رکھنے کی ضرورت پر تاکید کی ہے-
اسپین کے اخبار ال پاییس میں جوزف بورل نے ایک نوٹ میں لکھا ہے کہ مذاکرات کے لئے نئے حالات فراہم کئے جائیں تاکہ ایٹمی معاہدے کا احیا کیا جا سکے- ایسی دنیا میں کہ جب ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ سے متعلق سمجھوتوں کا شیرازہ بکھر رہا ہے اور چند فریقی سمجھوتوں اور معاہدوں کے ذمہ دار اداروں کو حملے کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ، ایٹمی معاہدے جیسے عظیم سرمائے کا تحفظ کئے جانے کی ضرورت ہے- بورل نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ایٹمی معاہدہ بہت طولانی مذاکرات کا ماحصل ہے کہا کہ اس سمجھوتے کا اصلی مقصد محض ایران کے ایٹمی پروگرام سے نمٹنا تھا اور اس سمجھوتے سے متعلق بہت سے دیگر مسائل کنارے لگا دیئے گئے-
فرانس نے بھی یورپی ٹرائیکا کے ایک رکن کی حیثیت سے ایٹمی معاہدے کے تحفظ کی ضرورت پر تاکید کی ہے - فرانس کی وزارت خارجہ کے ترجمان ایگنس وون ڈر موہل Agnes von der Muhll نے بدھ کی رات کو اس بات کا دعوی کیا کہ پیرس ، جرمنی اور برطانیہ کے ہمراہ ایٹمی معاہدے میں ایران کے اقتصادی مفادات کے تحفظ کے لئے کوشاں ہے- انہوں نے ایران یورپ تجارتی لین دین کے عمل کو آسان بنانے کے لئے انسٹیکس سے موسوم سسٹم کی کاروائی شروع کرنے کی خبر دی اور کہا کہ اس سلسلے میں ضروری اقدامات عمل میں لائے جاچکے ہیں- وون ڈرمول نے یہ بھی کہا کہ ایٹمی معاہدے کے دائرے میں ایران کے اقتصادی مفادات کا تحفظ کرنا ، صرف یورپیوں کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ عالمی برادری پر بھی، سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کو عملی جامہ پہنانےکے سلسلےمیں ذمہ داری عائد ہوتی ہے-
جرمنی، برطانیہ اور فرانس نے، مئی 2018 میں ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے غیر قانونی اقدام کے بعد یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ایران کے اقتصادی مفادات کو ضمانت فراہم کرنے کے ساتھ ہی اس سمجھوتے کا تحفظ کریں گے- یورپی یونین اور ایٹمی معاہدے کے فریق تین یورپی ممالک جرمنی، برطانیہ اور فرانس ، ایٹمی معاہدے کو چند فریقی معاہدوں کا آئیڈیل قرار دیتے ہیں کہ جس نے عالمی امن و سلامتی کے تحفظ میں بہت زیادہ مدد کی ہے- یورپیوں کی نگاہ میں ایٹمی معاہدہ یورپی سفارتکاری کا اہم کارنامہ شمار ہوتا ہے اور اس میں ناکامی، درحقیقت عالمی سطح پر یورپی یونین کی سفارتکاری اور اس کی سیاسی پوزیشن کی بہت بڑی ناکامی ہوگی-
اس کے باوجود کہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کو نکلے ہوئے تقریبا ڈیڑھ سال کا عرصہ ہو رہاہے یورپی ممالک، ٹرمپ حکومت کی یکطرفہ پابندیوں کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لئے، اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہ گئے ہیں اور خاص طور پر انسٹیکس پر موثر عملدرآمد کے سلسلے میں اہم قدم نہیں اٹھایا ہے- یہی وہ مسئلہ ہے جس نے ایران کو ٹھوس ردعمل ظاہر کرنے اور تہران کو دو مرحلوں میں ایٹمی معاہدے میں کئے گئے اپنے دو وعدوں میں کمی لانے اور ساٹھ روزہ مہلت دینے کے اقدام پر مجبور کیا ہے، اور اب یہ دوسری مہلت بھی اپنے اختتام پر ہے-
اس طرح سے یورپی یونین اور یورپی ٹرائیکا کے لئے مواقع تیزی سے ختم ہو رہے ہیں- اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے بدھ چودہ اگست کو ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں اپنے تازہ ترین موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ
کہ جوہری وعدوں کی معطلی کا اگلا قدم دوسرے الٹی میٹم کے خاتمے پر اٹھایا جائے گا- انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایران کو کوئی نتیجہ حاصل نہ ہوا تو یورپ کو دوسری مرتبہ دی جانے والی 60 روزہ مہلت ختم ہونے کے بعد قطعی طور پر جوہری معاہدوں کی شقوں پر عمل درآمد روکنے کا تیسرا قدم بھی اٹھایا جائے گا.انہوں نے مزید بتایا کہ ہم دوسرے 60 روزہ الٹی میٹم کے اختتام کے بعد ایک منطقی، منصفانہ اور متوازن حل پر پہنچنے کے لیے تیسری مرتبہ کے لیے مزید ساٹھ دنوں کی مہلت دیں گے-
اگر یورپی یونین اور یورپی ٹرائیکا واقعی میں ایٹمی معاہدے کو باقی رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو ان کو چاہئے کہ ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کو ناکام بنانے کے لئے اپنے مد نظر تدابیر کو عملی جامہ پہنائیں اور جلد از جلد ٹھوس اور موثر اقدامات عمل میں لائیں - لیکن اگر یورپ اپنی ماضی کی پالیسیوں اور لیت و لعل سے کام لیتا رہے تو اسے یکطرفہ طور پر صرف تہران سے ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کی توقع نہیں رکھنی چاہئے اور یہ بات بھی واضح ہے کہ ایٹمی معاہدے کے تحفظ کے سلسلے میں جوزف بورل یا یورپی ٹرائیکا کے حکام کی محض بیان بازیاں، موجودہ پیچیدہ صورتحال کو برطرف کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہوسکتیں-