Aug ۱۸, ۲۰۱۹ ۱۹:۵۳ Asia/Tehran
  • تہران میں بحران یمن کے بارے میں اہم اجلاس

تہران میں بحران یمن کے سیاسی حل کے بارے میں ایک اہم اجلاس منعقد ہوا ہے۔

ہفتہ کے روز منعقد ہونے والے اس اجلاس میں یورپی یونین کے متعلقہ چار ممالک برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اٹلی کے نمائندے، ایرانی وزارت خارجہ اور یمن کی عوامی و انقلابی تحریک انصاراللہ  کے وفود اور کچھ ممالک کے سفیر شریک تھے۔

اس اجلاس میں شریک وفود نے سیاسی، زمینی اور انسانی موضوعات سمیت یمن کے حالات کے بارے میں اپنی اپنی حکومتوں کے موقف پیش کئے اور جنگ کے فوری خاتمہ اور بحران یمن کے حل کے سیاسی طریقے پیش کئے جانے پر زور دیا۔ یمن کی عوامی و انقلابی تحریک انصاراللہ کے وفد نے تحریک کے ترجمان محمد عبدالسلام کی قیادت میں اجلاس میں شرکت کی۔

سعودی عرب امریکہ، متحدہ عرب امارات اور چند دیگر ملکوں کی حمایت سے مارچ سنہ 2015ع سے یمن پر فوجی جاریت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور ساتھ ساتھ یمن کا زمینی، سمندری اور ہوائی محاصرہ بھی کر رکھا ہے۔ یمن میں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جنگ پسندی کے نتیجہ میں اب تک 16 ہزار سے زیادہ یمنی شہری شہید، دسیوں ہزار زخمی اور لاکھوں یمنی  بےگھر ہوچکے ہیں۔

اس وقت جنگ یمن کے سلسلہ میں دو اہم مسئلے  ہیں اور دونوں مسائل کے بارے میں حساسیت اور ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے۔ پہلا مسئلہ یمنی عوام کی افسوسناک صورت حال ہے جو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔ موصولہ رپورٹوں کے مطابق یمن کے 22 صوبوں میں سے 20 صوبوں کو بحرانی صورت حال کا سامنا ہے اور یمن کی دو تہائی سے زیادہ آبادی بھوک کا شکار ہے نیز انسان دوستانہ مدد کی اس کو فوری ضرورت ہے۔

دوسرا مسئلہ یمن میں امن مذاکرات کا مسئلہ ہے جس کے لئے اقوام متحدہ کی مدد سے چند فریقی اور سفارتی کوششوں کی ضرورت ہے۔ تہران اجلاس انہیں دونوں مسئلوں کے بارے میں منعقد ہوا ہے۔

بعض سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ یمن سے متحدہ عرب امارات کی پسپائی کا فیصلہ اگر مکمل پسپائی کا ہو تو یہ یہ اقدام جنگ کے خاتمہ کی راہ میں ایک اچھے موقع میں تبدیل ہوسکتا ہے لیکن اس پالیسی پر اس وقت عمل ہوسکتا ہے جب یمن کی تقسیم کی سازشوں کو روک دیا جائے۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے گزشتہ منگل کو تہران میں تحریک انصاراللہ کے وفد سے اپنے خطاب میں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات یمن کی تقسیم کے درپے ہیں فرمایا تھا کہ ”اس سازش کے سامنے پوری طاقت سے ڈٹ جانا چاہئے اور متحدہ یمن اور اس کی ارضی سالمیت کی حمایت کرنی چاہئے۔“

یمن کے عوام کی مجاہدت اور انصاراللہ اور یمنی فوج کی استقامت کی وجہ سے ابھی تک سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے مقاصد پورے نہں ہوئے ہیں۔ اس جنگ میں مغربی ممالک کی طرف سے سعودی عرب کی اسلحہ جاتی اور سیاسی حمایت کے باوجود یہ ثابت ہوگیا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو فوجی لحاظ سے برتری حاصل نہیں ہے جبکہ اس کے برعکس یمن کی فوج اور عوامی رضاکار فورس کی کامیابیاں اور سعودی عرب کی سرزمین پر شدید میزائلی اور ڈرون حملے کسی بھی طرح امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے خوش آئند نہیں ہیں۔

تہران کی ابرار معاصر بین الاقوامی تحقیقات و مطالعات کی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ان تغیرات نے انصاراللہ کے حق میں بھی سیاسی توازن میں تبدیلی کی راہ ہموار کر دی ہے اور مجموعی طور پر یہ تغیرات امریکہ اور سعودی عرب کے لئے تشویش کا باعث بنے ہیں۔

بحران یمن کے چار سالہ تجربہ سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی عرب اور اس کے مغربی اتحادی، خاص طور سے امریکہ، زیادہ سے زیادہ مفادات حاصل کرنے کے چکر میں تھے لیکن ان کو متعدد فوجی شکستوں اور سیاسی عمل میں تعطل کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔

اب ایک سال سے زیادہ کے عرصہ میں یمن کے مسائل کے بارے میں اٹلی، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور ایران کے درمیان مذاکرات جاری ہیں اور ایران نے بارہا اس جارحانہ جنگ کو روکے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔

اسلامی جمہوریۂ ایران امن کے عمل میں مدد، یمن کے محاصرہ کے خاتمہ اور یمنی عوام کے لئے انسان دوستانہ امداد کی اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔ تہران اجلاس میں بھی ایران کی طرف سے بحران یمن کی سیاسی راہ حل کی حمایت پر تاکید کی گئی اور واضح کیا گیا کہ ایران اسٹاک ہوم معاہدے کی حمایت کرتا ہے۔

ٹیگس