Aug ۲۲, ۲۰۱۹ ۱۵:۲۷ Asia/Tehran
  • یورپ میں داعش کی منتقلی کے بارے میں ٹرمپ کا دوبارہ انتباہ

امریکہ اور اس کے مغربی اور عرب اتحادی ممالک داعش سمیت تکفیری دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں کو بڑھاوا دینے میں ناقابل انکار کردار کے حامل رہے ہیں-

ان ممالک نے شام کی قانونی حکومت کا تختہ پلٹنے کے لئے داعش اور دیگر دہشت گرودوں کو اس ملک میں بطور آلہ کار استعمال کیا ہے اس کے باوجود ان کی پالیسی ناکامی سے دوچار ہوئی ہے-

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے تازہ ترین موقف میں ان ممالک سے جو اس دہشت گرد گروہ کے تشدد کی بھینٹ چڑھے ہیں ان سے مقابلے کی بات کہی ہے- اسی سلسلے میں ٹرمپ نے بدھ اکیس اگست کو داعش دہشت گرد گروہ کے خلاف تہران کی جدوجہد کی جانب اشارہ کئے بغیر ایران ، روس اور پاکستان  سے داعش کے خلاف جنگ کی اپیل کی ہے-

اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے یورپی اتحادیوں سے ایک بار پھر یورپی شہریت کے حامل داعشی عناصر کو ان کے ملک میں داخل ہونے سے روکنے کے نتائج کی بابت خـبردار کیا ہے- ٹرمپ نے کہا کہ اگر یورپ داعشی دہشت گردوں کو قیدی کے طور پر قبول نہ کرے تو وہ مجبور ہوجائیں گے کہ ان کو رہا کردیں تاکہ وہ اسی ملک چلے جائیں جہاں سے آئے ہیں، جیسے فرانس اور جرمنی۔۔

ٹرمپ کی یہ دھمکی یورپ کے ان بڑے ملکوں کے لئے ہے کہ جن کے باشندوں کی ایک نمایاں تعداد نے گذشتہ برسوں کے دوران داعش کی صف میں داخل ہوکر جنگ کی ہے جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ واشنگٹن آسانی کے ساتھ یہ چاہتا ہےکہ جس دہشت گرد گروہ کو اس نے خود جنم دیا  اور اس کو وجود میں لانے میں اہم کردار کا حامل رہا  ہے، اس کی ذمہ داری دیگر ملکوں پر ڈال دے اور خود کو بری الذمہ قرار دے - تجزیہ نگاروں کا خیال ہےکہ امریکہ ، یورپ کے بعض ملکوں کے ساتھ مل کر مغربی ملکوں کے اہداف اور مفادات پورے کرنے کے مقصد سے داعش کو بڑھاوا دینے میں بنیادی کردار ادا کرتا رہا ہے- مغربی ایشیا کے مسائل کے ماہر فرڈریک پواسون  Frédéric Poisson کا خیال ہے کہ امریکہ اور فرانس دونوں کے کاندھوں پر داعش دہشت گرد گروہ کو وجود میں لانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے- اس طرح سے کہا جا سکتا ہے کہ یورپی ممالک نے بھی واشنگٹن کے ساتھ ساتھ داعش کی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے-

 جون 2014 سے داعش مخالف نام نہاد عالمی اتحاد کی تشکیل کے وقت سے ہی امریکہ کا مقصد ایک معین فریم ورک میں داعش کی حفاظت کرنا رہا ہے تاکہ اسے شام کی حکومت اور فوج اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال کرسکے-

اس طرح سے داعش سے مقابلے کے سلسلے میں امریکہ کی حقیقت سب پر برملا ہوچکی ہے- ساتھ ہی ٹرمپ نے اس سے پہلے یہ اظہار خیال کیا تھا کہ شام میں داعش کے خلاف امریکہ کی جدوجہد ایران اور روس کے حق میں ہے اور اس سلسلے میں ہونے والے اخراجات پر ٹرمپ نے انگلی اٹھاتے ہوئے اسے بے سود قرار دیا تھا- درحقیقت امریکہ گذشتہ آٹھ سال کے دوران، شام کی حکومت کے مخالفین اور دہشت گرد گروہوں کا حامی رہا ہے تاکہ بشار اسد کی قانونی حکومت کوگرادے لیکن وہ اپنا یہ مقصد حاصل نہیں کرسکا ہے اور اب جبکہ داعش گروہ مکمل طور پر کمزور ہوچکا ہے، اس پر کامیابی حاصل کرنے اور اس سلسلے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کا ٹرمپ کا دعوی بالکل کھوکھلا اور ناقابل قبول ہے- 

اس وقت ٹرمپ کچھ ایسا انداز اپنائے ہوئے ہیں گویا داعش کو وجود میں لانے کے تعلق سے وہ اپنی ساری باتوں اور اپنے سابقہ موقف کو بھول بیٹھے ہیں اور ایران اور روس جیسے ملکوں سے جنہوں نے داعش کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ رول ادا کیا ہے ان سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ اپنا کام جاری رکھیں-

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ نے داعشیوں کو یورپ کی جانب منتقل کئے جانے کے بارے میں ایک بار پر دھمکی دی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ یورپی ممالک کے وہ داعشی عناصر جو اس دہشت گرد گروہ میں جاکے شامل ہوگئے ہیں، ان کو اپنے ملکوں میں آنے سے نہ روکیں- اس وقت ٹرمپ یورپی ملکوں کے ساتھ بہت سے مسائل میں اختلاف کے سبب مختلف ہتھکنڈوں سے یورپی ملکوں پر دباؤ بڑھا رہے ہیں اور اسی سلسلے میں وہ داعشی عناصر کو واپس ان کے ملکوں میں بھیجنے کے لئے دباؤ ڈال رہے ہیں لیکن یورپی حکومتیں ان کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور یورپ کے درمیان اختلافات کی ایک طویل فہرست میں ایک اور اختلاف کا اضافہ ہوگیا ہے-

ٹیگس