اسرائیل کے پارلیمانی انتخابات کے نزدیک ہونے کے موقع پر دمشق پراسرائیل کا ایک بارپھر حملہ
صیہونی حکومت نے آج صبح ایک بار پھر ، دمشق کے اطراف میں شامی فوج کے ٹھکانوں پر حملہ کیا ہے
صیہونی حکومت کے جنگی طیاروں نے گذشتہ برسوں کے دوران بارہا شام کے فوجی ٹھکانوں منجملہ دمشق کے اطراف میں حملے کئے ہیں- گذشتہ چند مہینوں میں یہ پہلی بار ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتنیاہو نے ایک بیان میں دمشق کے خلاف اسرائیل کے جنگی طیاروں کے حملے کا اعتراف کیا ہے-
دمشق میں شامی فوج کے ٹھکانوں پر صیہونی حکومت کا حملہ ، عراق میں حشد الشعبی کے ٹھکانوں پر اسرائیل کے جنگی طیاروں کے حملوں کا تسلسل ہے- گذشتہ ایک مہینے کے دوران اسرائیل نے چار مرتبہ حشد الشعبی کے ٹھکانوں پر حملہ کیا ہے کہ جسے نتنیاہو نے اشارۃ قبول بھی کیا ہے- نتنیاہو کا یہ تصور ہے کہ جس طرح سے حشد الشعبی کے ٹھکانوں پر حملہ کرکے عراقیوں کے ردعمل کا اس کو سامنا نہیں کرنا پڑا اسی طرح شامی فوج کے ٹھکانوں پر بھی حملہ کرکے اسے کسی ردعمل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا- لیکن اس کا یہ تصور حملے کے وقت ہی غلط ثابت ہوگیا اس لئے کہ شامی فوج کے ڈیفنس سسٹم نے اسرائیل کے جنگی طیاروں کے حملے پر اپنا ردعمل ظآہر کیا ہے-
نتنایاہو کہ جو اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف امریکہ کے فوجی حملے سے نا امید ہوچکا ہے، اب امریکی حمایت سے اس کوشش میں ہے کہ مغربی ایشیا کے علاقے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اتحادیوں کے ٹھکانوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنائے- دمشق اور حشد الشعبی پر حملہ اور اسی طرح انصاراللہ کو دھمکی دینا اسی تناظر میں قابل غور ہے- درحقیقت علاقے میں ایران کے اتحادیوں کے ٹھکانوں پر حملے، ایرانو فوبیا کے دائرے میں اور اسی طرح ایران اور اس کے اتحادیوں کی علاقائی پوزیشن کو مستحکم ہونے سے روکنے کے مقصد سے انجام پا رہے ہیں- اسی بنا پر بنیامین نتنیاہو نے گذشتہ دنوں میں کئی بار یہ دعوی کیا ہے کہ ہماری فوج ہر جہت سے ایران کا مقابلہ کر رہی ہے - ہم نے فوج کو حکم دیا ہے کہ کسی بھی سناریو کے لئے آمادہ رہیں-
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ ان حملوں سے نتنیاہو کا اہم ترین مقصد، اسرائیل کے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا ہے کہ جو 17 ستمبر کو دوسری مرتبہ ، گذشتہ چھ مہینوں کے اندر انجام پانے والے ہیں-
بنیامین نتنیاہو کو اس وقت مقبوضہ علاقوں میں بدترین سیاسی حالات کا سامنا ہے- نتنیاہو کہ جن کو نو اپریل کے قبل از وقت پارلیمانی انتخابات میں، اپنے حریف بنی گینٹز کے مقابلے میں بہت کم ووٹوں سے کامیابی ملی تھی ، بیالیس دنوں کے بعد بھی نئی کابینہ تشکیل نہیں دے سکے تھے- ایسے میں جبکہ نتنیاہو اقتدار سے بے دخل ہو رہے تھے ، اور صیہونی حکومت کسی اورکو کابینہ کی تشکیل کی ذمہ داری سونپنے والی تھی کہ ایسے میں اسرائیلی پارلیمنٹ نے، پارلیمنٹ تحلیل کرنے کے حق میں ووٹ دے دیا تاکہ ستمبر میں نئے انتخابات منعقد کرائے جائیں اور نتنیاہو اس وقت تک وزارت عظمی کے عہدے پر باقی رہے-
کابنیہ کی تشکیل میں ناکامی ہی صرف مقبوضہ علاقوں میں نتنیاہو کی اہم مشکل نہیں ہے بلکہ وہ کچھ اور بھی اہم مسائل سے دوچار ہیں کہ جو ان کی سزا کا باعث بن سکتے ہیں- نتنیاہو کے خلاف بدعنوانی کے چارمقدمات درج ہیں جس کے لئے اس نے بہت زیادہ کوشش کی کہ ان کیسوں سے متعلق فیصلہ نئی کابینہ کی تشکیل کے بعد صادر ہو- لیکن جب نئی کابینہ تشکیل نہ پا سکی تو اسرائیل کے اٹارنی جنرل نے بھی فیصلے کی مدت بڑھا کر آئندہ اکتوبر تک کردی ہے تاکہ نتنیاہو ستمبر کے انتخابات میں بھی حصہ لے سکیں۔ لیکن ان کے حریفوں نے ایک بار پھر ، نتنیاہو کے خلاف عائد بدعنوانی کے مقدمات پر اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہے- اسی سلسلے میں اخبار ہا آرٹص نے لکھا ہے کہ نتنیاہو کے اتحادی اسے قانونی کاروائی سے استثنی دلانے کے درپے تھے اور طے یہ پایا تھا کہ اس استثنی سے متعلق بل کا بھی پارلیمنٹ میں، کابینہ کی تشکیل کے بعد جائزہ لیا جائے-