برگزیٹ کے مسئلے پر جانسن اور مخالفین کے درمیان سخت ٹکراؤ
یورپی یونین سے برطانیہ کے نکلنے کا مسئلہ اس وقت برطانیہ کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کے اہم ترین مسئلے میں تبدیل ہوگیا ہے- برطانیہ کے مستقبل کے لئے برگزیٹ کے تقدیر ساز ہونے کی اہمیت کے پیش نظر، وزیر اعظم بوریس جانسن کہ جو کسی معاہدے کے بغیر یورپی یونین سے نکلنے پر زور دے رہے ہیں اور مخالفین کہ جو یورپی یونین سے معاہدے کے ساتھ نکلنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، کے درمیان اختلاف شدت اختیار کر گیا ہے-
اسی سلسلے میں برطانیہ کی لیبر پارٹی کے رہنما جرمی کوربین نے اس ملک کی سب سے اہم پارٹی کی حیثیت سے پیر کو کہا کہ وہ حکومت کی آمرانہ روش کے سامنے میں ڈٹ جائیں گے- کوربین نے کہا کہ برطانیہ کے وزیر اعظم بوریس جانسن کے رویے کے مخالفین کے درمیان ، بہت سے ایسے افراد ہیں جنہوں نے یورپی یونین سے جدائی یعنی برگزیٹ کے حق میں ووٹ دیا ہے لیکن وہ کسی معاہدے کے بغیر یورپی یونین سے نکلنے کے مخالف ہیں کیوں کہ وہ اسے نقصان دہ اور امریکہ کے فائدے میں قرار دے رہے ہیں- کوربین نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ وہ تمام پارٹیوں کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں، کہا کہ ہم ان سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ جانسن کے رویے کی مخالفت کریں اور آئندہ کچھ گھنٹوں میں یہ معلوم ہوجائے گا کہ ان اقدامات کے کیا نتائج سامنے آئیں گے- برطانیہ کی لیبر پارٹی کے رہنما نے وزیر اعظم بوریس جانسن کے سیاسی نا اہلی والے منصوبے کا جائزہ لینے پر ایک بار پھر تاکید کی اور کہا کسی معاہدے کے بغیر یورپی یونین سے نکلنے کا مطالبہ، امریکی مطالبہ ہے- جانسن نے وعدہ دیا ہے کہ برطانیہ کو وہ اکتیس اکتوبر تک معاہدے کے ساتھ یا معاہدے کے بغیر یورپی یونین سے نکال لیں گے اور جمعے کے روز بھی انہوں نے برطانیہ کو یورپی یونین سے نکالنے کی راہ میں روڑے اٹکائے جانے کی بابت، کسی بھی قسم کی کوشش کے بارے میں خبردار کیا-
انہوں نے اپنے اس موقف کی مخالفت کرنے والوں پر یورپی یونین کے ساتھ ساز باز کا بھی الزام عائد کیا ہے۔ فیس بک پر سوال و جواب کے سیشن کے دوران وزیراعظم بوریس جانسن نے بعض ارکان پارلیمنٹ کے بارے میں، جو بقول ان کے یہ سمجھتے ہیں کہ بریگزٹ کو روکا جاسکتا ہے، کہا کہ وہ یورپی یونین کے خفیہ ایجنٹ ہیں۔ برطانیہ کے وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ہمارے یورپی دوست، کبھی سازش نہیں کرتے تاہم انہوں نے کہا کہ جتنا دباؤ بڑھےگا اتنا ہی بغیر معاہدے کے بریگزٹ کا امکان قوی ہوتا جائے گا۔ ایک ایسے وقت میں جب برطانیہ کے وزیراعظم بارہا بغیر معاہدے کے یورپی یونین سے علیحدگی کی بات کرچکے ہیں، دارالعوام کے سربراہ جان برکاؤ نے بدھ کے روز واضح کیا ہے کہ وہ بوریس جانسن کو بغیر معاہدے کے بریگزٹ کو عملی جامہ پہنانے اور اس مسئلے میں پارلمینٹ کو بائی پاس کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ سابق برطانوی وزیر خزانہ فلپ ہامونڈ نے بھی بغیر معاہدے کے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کو ملک سے غداری قرار دیا ہے۔
ادھر امریکی کانگریس کے سینئر حکام نے اعلان کیا ہے کہ کسی معاہدے کے بغیر یورپی یونین سے برطانیہ کے نکل جانے کی صورت میں وہ لندن کو ، برطانیہ کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے جیسی تجارتی مراعات نہیں دیں گے۔ امریکی ایوان نمائندگان کی سربراہ نینسی پلوسی نے حال ہی میں خبردار کیا ہے کہ یورپی یونین سے برطانیہ کے نکل جانے کی صورت میں اگر شمالی آئرلینڈ کے امن سمجھوتے کو خطرہ لاحق ہوتا ہے تو پھر لندن اور واشنگٹن کے درمیان کسی بھی معاہدے کی کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی - پلوسی نے کہا کہ یورپی یونین سے برطانیہ کے نکل جانے کی صورت میں اگر شمالی آئیرلینڈ امن معاہدہ کو خطرہ لاحق ہوگا تو وہ امریکہ اور برطانیہ کے تجارتی معاہدے کو بلاک کر دیں گی- البتہ وائٹ ہاؤس کا موقف اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، بوریس جانسن کے حامی کے طور پر نہ صرف ان کو جلد از جلد بریگزٹ کو عملی جامہ پہنانے کی ترغیب دلا رہے ہیں بلکہ اس بات کے بھی خواہاں ہیں کہ لندن بریسلز کو بریگزیٹ کے سبب مالی تاوان بھی ادا نہ کرے- اس وقت جانسن کے مخالفین خاص طور پر کوربین کو یہ تشویش ہے کہ معاہدے کے بغیر بریگزٹ کے عملی جامہ پہننے کی صورت میں برطانیہ کمزور پوزیشن میں آجائے گا اور پھر واشنگٹن کی شرطیں قبول کرنے پر مجبور ہونے کے ساتھ ہی ٹرمپ انتظامیہ کے ایک فرمانبردار کارگزار میں تبدیل ہوجائے گا-
واضح رہے کہ یورپی یونین سے برطانیہ کے نکلنے کے تعلق سے سن دوہزار سولہ میں ہونے والے ریفرنڈم میں باون فی صد برطانوی شہریوں نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیئے تھے۔ یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے عمل میں ناکامی کی وجہ سے اب تک اس ملک میں دو حکومتیں تبدیل ہو چکی ہیں-