صدر ایران کا دورۂ ترکی، شام کے بحران کےحل کے لئے سہ فریقی اجلاسوں کے دائرے میں اہم قدم
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حسن روحانی ایران، روس اور ترکی کے سہ فریقی اجلاس میں شرکت کے لئے اتوار پندرہ ستمبر کو ایک اعلی رتبہ وفد کے ہمراہ ترکی کا دورہ کر رہے ہیں-
ایران، روس اور ترکی کے درمیان سہ فریقی اجلاس کا پانچواں دور پیر کے روز سے انقرہ میں شروع ہو رہا ہے جو شام کے بحران کے حل کے لئے آستانہ عمل کے ضامن تین ملکوں کے درمیان جاری تبادلۂ خیال کا ایک تسلسل ہے- یہ مذاکرات جنوری 2017 سے ایران کی جدت عمل اور روس اور ترکی کے تعاون سے شام میں امن کے قیام کے سلسلے میں شروع ہوئے ہیں- اس سہ فریقی مذاکرات کے اجلاسوں کے اہم نتائج میں سے ایک، شام میں دہشت گردوں کے زیر قبضہ علاقوں کو آزاد کرانا رہا ہے- اس عمل کے جاری رہنے کے سبب، شام میں دہشت گرد گروہوں کی شکست کے بعد اہم تبدیلیاں وجود میں آئی ہیں-
اس وقت شام کی صورتحال فوجی لحاظ سے بھی اور شامی فریقوں کے درمیان مذاکرات کے دائرے میں بھی تبدیل ہوئی ہے اور امریکہ ان حقائق کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوا ہے- امریکہ شام پر جنگ مسلط کرکے اس ملک کو تقسیم کرنے اور مزاحمتی محور کو ناکامی سے دوچار کرنےکے درپے ہے- امریکہ نے داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی مدد سے شام اور اسی طرح عراق کو دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں کے مرکز میں تبدیل کردیا ہے- ان اقدامات نے ایسی حالت میں علاقے کی سلامتی کو خطرے سے دوچار کردیا ہے کہ صیہونی حکومت بھی موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھاکر علاقے کو تقسیم کرنے کے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے درپے ہے- اس وقت شام میں جنگ کی آگ کے شعلے ٹھںڈے پڑجانے کے بعد امریکہ ، اسرائیل اور اس کے علاقائی اتحادیوں کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ شام میں امن و استحکام کی بحالی ، علاقے میں ان کے اسٹریٹجیک اہداف کی حمتی اور قطعی شکست کے مترادف ہے- ایران، روس اور ترکی کا باہمی تعاون، دہشت گردی خاص طور پر تکفیری- داعشی دہشت گرد گروہ سے مقابلے میں فیصلہ کن کردار کا حامل رہا ہے جس کے نتیجے میں جنگوں والے علاقوں میں دہشت گردوں کا خاتمہ ہوچکا ہے اورشام کے پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعدداد اپنے گھروں کو لوٹ آئی ہے- اس بنا پر شام میں امن کی بحالی میں اس سہ فریقی اجلاس کے با اثر کردار سے انکار نا ممکن ہے-
موجودہ صورتحال میں علاقے میں طاقت کا توازن مزاحمتی محاذ کے حق میں تبدیل ہوگیا ہے اور شام کی صورتحال بھی مستحکم پوزیشن کی جانب رواں دواں ہے- ایسی صورت میں ایران، ترکی اور روس کا باہمی تعاون اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل ہے-
وسطی ایشیا اور قفقاز اسٹڈیز سینٹر کے سابق سربراہ سید رسول موسوی کہتے ہیں : تین ملکوں کے سربراہی اجلاس کا اہم ترین مقصد ، شام میں امن و استحکام کا قیام ، اس ملک کی ارضی سالمیت کا تحفظ اور شام کے عوام کے ہاتھوں اپنی سرنوشت کے تعین کے لئے سیاسی حالات فراہم کرنا ہے اور ایران ، روس اور ترکی تینوں ہی ملک ان اصولوں سے وفادار ہیں-
اگرچہ ایران، روس اور ترکی ، علاقے اور عالمی نظام میں مختلف پوزیشنوں کے حامل ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک نے یہ ثابت کردکھایا ہے کہ وہ علاقائی و بین الاقوامی مفادات کی تکمیل کے لئے مشترکہ سوچ رکھتے ہیں- سہ فریقی اجلاسوں کا اہم نکتہ، مشترکہ علاقائی اہداف کے تناظر میں مذاکرات کو جاری رکھنا ہے- اس درمیان شام کی حکومت نے بھی ملک کو مستحکم کرنے اور دہشت گردوں نیز مزاحمت کے دشمنوں سے مقابلے کے لئے سخت و دشوار راستہ طے کیا ہے- لیکن تمام فوجی و سیاسی اہداف کے مکمل حصول، اور جنگ کے سبب ہونے والی تباہیوں اور ویرانیوں کی تعمیر نو کے لئے مزید مدد وحمایت کی ضرورت ہے- ایران ، روس اور ترکی کے درمیان انقرہ میں ہونے والا سہ فریقی اجلاس کا پانچواں دور اس لحاظ سے ایک اور اہم قدم ہے کہ جو شام کے بحران کے حل کے لئے اٹھایا جا رہا ہے-
ایران ، روس اور ترکی کے درمیان باہمی تعاون کے کامیاب تجربے نے، درحقیقت استحکام کے تحفظ کے لئے علاقائی گنجائشوں کو آشکارہ کردیا ہے اور یہ ثابت کردیا ہے کہ اس سلسلے میں کسی مشترکہ نقطہ نظر تک پہنچا جا سکتا ہے اور یہ علاقے کے تمام ملکوں کے لئے ایک اہم دستاویز اور کارنامہ ہے- سیاسی مبصرین کے نقطہ نگاہ سے آستانہ عمل کے ضامن تین ملکوں کا سربراہی اجلاس، شام کے بحران کے حل میں مدد کے ساتھ ہی علاقائی مفادات کو بھی ضمانت فراہم کرنے والا ہے- اس بنا پر ایسے حالات میں کہ جب شام میں امن و استحکام کے قیام کے لئے ، علاقے کے ملکوں کی مشترکہ کوششیں جاری رہنے کی ضرورت ہے، انقرہ کے سہ فریقی اجلاس میں انجام پانے والے تبادلۂ خیال اور فیصلے، قطعی طور پر علاقے کے دیگر ملکوں میں بھی مزید امن و استحکام قائم ہونے پر اثرانداز ہوں گے-