Sep ۲۳, ۲۰۱۹ ۱۷:۵۹ Asia/Tehran
  • پابندیوں کا پیمانہ لبریز ہونے پر واشنگٹن کا اعتراف، اور ایران کے خلاف عالمی اجماع قائم کرنے کی بیہودہ آرزو

امریکی صدر ڈونلد ٹرمپ نے ایٹمی معاہدے سے نکلنے کے بعد ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ پابندی کی پالیسی اپناتے ہوئے ایران کے خلاف سخت ترین پابندیاں عائد کر رکھی ہیں- اس کے ساتھ ہی واشنگٹن اس وقت اپنی پالیسیوں کے بے نتیجہ ہونے کا اعتراف بھی کر رہا ہے-

امریکہ کے وزیر خزانہ اسٹیفن منوچین نے اتوار کو کہا کہ ایران کے خلاف پابندیاں اپنی آخری حد کو پہنچ چکی ہیں- منوچین نے ایران کے خلاف ممکنہ فوجی آپشن کے بارے میں دعوی کیا کہ یہ آپشن ایران کے بارے میں ہمیشہ میز پر موجود ہے-

ٹرمپ انتظامیہ کے ایک سینئر وزیر کی جانب سے اس طرح کے اعتراف سے پتہ چلتا ہے کہ واشنگٹن کی جانب سے ایران کو مجبور کرنے کے لئے امریکی وزیر خارجہ پمپئو کے توسط سے بارہ غیرقانونی شرطیں پیش کرنے اور ایران کے خلاف سخت ترین پابندیاں عائد کرنے کے باوجود بھی اسے کچھ حاصل نہیں ہوا ہے اور حتی حال ہی میں ایران کے مرکزی بینک کے خلاف پابندی عائد کرنا بھی کہ جس کا ٹرمپ نے گذشتہ جمعے کو اعلان کیا ہے، اس بینک کے خلاف ایک تکراری عمل شمار ہوتا ہے اور امریکہ اس کے پہلے بھی یہ کا م کرچکا ہے-

درحقیقت ٹرمپ انتظامیہ نے اپنی تمام تر توانائی صرف کرکے ہر شعبے میں ایران کے خلاف پابندی عائد کی ہے اور اب ایران کے خلاف پابندی عائد کرنے کے لئے مزید اس کے پاس کچھ بچا نہیں ہے- اس طرح سے توقع کی جا رہی ہے کہ واشنگٹن کہ جو ایران کے خلاف براہ راست پابندیاں عائد کرکے کچھ حاصل نہیں کرسکا ہے اب اس کا رجحان ثانوی پابندیوں یعنی تیسرے فریقوں کے خلاف پابندی عائد کرنے کی جانب ہوجائے، تاکہ اپنے زعم ناقص میں ایران پر مزید معاشی، بینکنگ اور تجارتی پابندیوں کے ذریعے دباؤ میں اضافہ کرے- ٹرمپ انتظامیہ آٹھ مئی 2018 کو یکطرفہ طور پر اور  سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2231 کے برخلاف ایٹمی معاہدے سے خارج ہوگئی اور ایران کے خلاف شدید تریں پابندیاں عائد کردیں، خاص طور ایران کے تیل کے خلاف پابندی لگا دی۔ لیکن امریکہ، ایران کو جھکنے پر مجبور کرنے کے اپنے ہدف و مقصد کو حاصل نہیں کرسکا ہے- 

اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے باوجود اس وقت ٹرمپ انتظامیہ مایوسی کے عالم میں اب ایران کے خلاف عالمی اجماع قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے اتوار کو اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اپنے بےبنیاد الزامات اور دعووں کی تکرار کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن ایران کے خلاف عالمی اجماع قائم کرنے میں کوشاں ہیں- پمپئو نے اے بی سی ٹیلیویژن کے ساتھ انٹرویو میں کوئی ثبوت و شواہد پیش کئے بغیر ایران پر ، سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملے کا الزام عائد کیا ہے اور کہا ہے ان کا ملک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے چوہترویں اجلاس میں کوشش کرے گا کہ ایران کے خلاف عالمی اجماع قائم کرے- پمپئو نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ عالمی برادری ایران پر دباؤ بڑھانے کے لئے امریکہ کے ساتھ متحد ہوجائے گی-

امریکی وزیر خارجہ ایسی حالت میں یہ دعوی کر رہے ہیں کہ واشنگٹن کے جز بعض اتحادیوں جیسے صیہونی حکومت اور سعودی عرب کے علاوہ دیگر ملکوں حتی گروپ فور پلس ون اور واشنگٹن کے یورپی اتحادیوں نے بھی بارہا ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکلنے پر تنقید کی ہے اور علاقائی و بین الاقوامی امن و سلامتی کے تحفظ کے لئے اس اہم معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے کا مطالبہ کیا ہے - ساتھ ہی واشنگٹن کو خلیج فارس میں سمندری اتحاد  قائم کرنے میں صرف پانچ ملکوں نے ساتھ دیا ہے اور اسے اس میدان میں بھی شکست و مایوسی کا سامنا ہوا ہے- امریکہ کے سینئر سینیٹر بن کارڈین کے بقول ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو گوشہ نشیں کرنے کے بجائے، امریکہ کو گوشہ نشیں کردیا ہے اور ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے- درحقیقت بہت سے دیگر ملکوں اور حتی امریکی سیاستدانوں کے بھی نقطہ نگاہ سے خلیج فارس میں حالیہ کشیدگی میں اضافے کی اصل وجہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کا نکل جانا ہے- 

امریکہ کے سابق وزیر خارجہ جان کیری کے بقول مغربی ایشیا کے علاقے میں حالیہ کشیدگی کا سبب واشنگٹن کا ایٹمی معاہدے سے نکل جانا ہے اور اس کی ذمہ دار ٹرمپ انتظامیہ ہے- اس طرح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امریکہ کے پمپئو جیسے سینئر حکام کے، اقوام متحدہ میں ایران کے خلاف عالمی اتفاق رائے حاصل کرنے کا بیہودہ خیال کبھی بھی حقیقت میں تبدیل نہیں ہوگا کیوں کہ دنیا کے ممالک ٹرمپ کی یکطرفہ اور تخریبی پالیسیوں سے بخوبی آگاہ ہیں اور وہ ان پالیسیوں پر کھلی تنقید کر رہے ہیں-         

ٹیگس