Oct ۰۷, ۲۰۱۹ ۱۷:۴۷ Asia/Tehran
  • افغانستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان کی برطرفی

افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی نے ایک حکم میں، اس ملک کی وزارت خارجہ کے ترجمان صبغت اللہ احمدی کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا ہے۔

افغان صدر کے ترجمان صدیق صدیقی نے کہا ہے کہ صبغت اللہ احمدی کی برطرفی کی وجہ، طالبان کے سیاسی وفد کے دورۂ پاکستان کے تعلق سے ان کا غیر ذمہ دارانہ بیان ہے- 

گذشتہ دنوں میں طالبان گروہ کے ایک وفد نے ، قطر میں اس گروہ کے دفتر کے سربراہ عبدالغنی برادر کی قیادت میں اسلام آباد میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی تھی- افغان صدر کے ترجمان صدیق صدیقی نے اس دورے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اجلاس سے افغان صلح کے عمل میں کوئی مدد نہیں ملے گی-

واضح رہے کہ صبغت اللہ احمدی نے ، صدیق صدیقی کے بیان کے کچھ دیر بعدر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس دورے کے بارے میں کہا کہ کابل امن کے سلسلے میں انجام پانے والی ہر ملک کی کوشش کا خیرمقدم کرتا ہے اور اسے توقع ہے کہ پاکستان ، طالبان کو مذاکرات کی میز تک لانے کے لئے افغان حکومت کے ساتھ  صداقت و دیانتداری سے کام کرے گا-

افغانستان میں امن کے قیام میں مدد کے لئے پاکستان کے منصوبے کا خیرمقدم کرنے میں، افغانستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان کا مثبت موقف، اور بیک وقت طالبان وفد کے دورۂ اسلام آباد کے بارے میں افغان صدر کے ترجمان کا منفی موقف  اس امر کا غماز ہے کہ اس ملک کے قومی اتحاد کے اندر افغانستان میں امن کے قیام کے عمل میں مدد کے تعلق سے دو مختلف نقطہ ہائے نگاہ پائے جاتے ہیں-

پہلا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ افغان حکومت کے نمائندوں کی شرکت کے بغیر طالبان کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کو قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے اس لئے کہ یہ امر افغانستان کی قومی حاکمیت اور اقتدار اعلی کے مفادات کے منافی ہے اور یہی سوچ افغان صدر اشرف غنی کی بھی ہے- چنانچہ طالبان وفد کے دورۂ پاکستان کے بارے میں صدر افغانستان کے ترجمان صدیق صدیقی کا منفی موقف اسی دائرے میں قابل غور ہے-

دوسرا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ افغان امن عمل میں مدد کے لئے دیگر ملکوں سے یہ توقع ہے کہ وہ بین الافغانی مذاکرات کے لئے حالات فراہم کریں اور یہ مقصد اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے کہ جب دیگر ممالک طالبانی لیڈروں کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے، ان کو کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کی ترغیب دلائیں  

پاکستان کی دعوت پر طالبان وفد کے دورۂ اسلام آباد پر افغان صدر کے ترجمان کے منفی ردعمل کے بعد،  افغانستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان صبغت اللہ احمدی کی جانب سے پاکستان میں ہونے والے مذاکرات کے بارے میں مثبت رائے قائم کرنا ہی، اشرف غنی کے توسط سے ان کی برطرفی کا باعث بنا البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ پہلے نظریے کے حامی افراد ، بین الافغانی مذاکرات انجام پانے کے مقصد سے حالات سازگار بنانے کے لئے، کون سے طریقوں پرغور کر رہے ہیں کہ جن کے ذریعے سے دیگر ملکوں کے حکام طالبان کے ساتھ بات چیت انجام دینے کے سلسلے میں کوششیں بروئے کار لائیں-

فطری طور پر جو بھی ملک صاف و شفاف اور سچائی و ایمانداری کے ساتھ افغان امن عمل کی راہ میں مدد کے لئے قدم اٹھانا چاہتا ہے اور طالبان گروہ کو اس ملک کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی ترغیب دلانا چاہتا ہے اس کے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے کہ وہ اس ملک کی حکومت کے ساتھ  بین الافغانی مذاکرات کے حالات سازگار بنانے کے لئے، اس گروہ کے لیڈروں کے ساتھ مذاکرات انجام دے -

البتہ یہ بات بھی مدنظر ہونی چاہئے کہ افغان امن کے عمل میں مدد کرنے والے ملک کو ، اس ملک کے قومی اقتدار اعلی کی تقویت اور تحفظ پر پوری توجہ دینی چاہئے اور اسے اپنی توجہ صرف کابل اور گروہ طالبان کے درمیان مذاکرات کے لئے حالات سازگار بنانے پر مرکوز کرنی چاہئے- 

طالبان کے ساتھ مذاکرات انجام دینے کا امریکی حکومت کا اقدام ، کہ جو بین الافغانی مذاکرات کے دائرے میں نہیں تھا، یقینا افغانستان کی قومی حاکمیت اور اقتدار اعلی کی خلاف ورزی کا واضح مصداق ہے-

افغانستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان کو برطرف کرنے کا حکم  صدر اشرف غنی نے ایسے میں صادر کیا ہے کہ اس ملک کی پارلیمنٹ کے بل کی بنیاد پر ، جولائی 2019 سے نئے صدر کی تقرری تک ، ان کو کسی کی معزولی یا تقرری کا حق نہیں ہے اور صبغت اللہ احمدی کی برطرفی کے مسئلے میں اس بل کی پابندی نہیں کی گئی ہے-   

ٹیگس