ایران کا چوتھا قدم ، فردو ایٹمی تنصیبات میں پانچ فیصد یورینیم افزودہ کرنے کا عمل جاری
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کی سطح میں کمی کے چوتھے مرحلے پر عملدرآمد کے دائرے میں ایران کے محکمۂ ایٹمی توانائی کے سربراہ کو حکم دیا ہےکہ فردو ایٹمی تنصیبات میں سینٹری فیوجز مشینوں میں گیس بھرنے کا کام انجام دیا جائے-
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حسن روحانی نے چھ نومبر 2019 کو، ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے کے یورپی فریقوں کو اپنے وعدوں پر عمل کرنے کے لئے، تیسرے مرحلے میں دی گئی دو ماہ کی مہلت ختم ہونے، اور یورپی ملکوں کی جانب سے اپنے وعدوں پر عمل نہ کرنے کے سبب ، ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کی سطح میں کمی کے چوتھے مرحلے کا اعلان کردیا ہے۔
چوتھا قدم دو جہت سے بہت اہمیت کا حامل ہے؛اول تو یہ کہ ایٹمی معاہدے کی بنیاد پر، فردو کی ایٹمی تنصیبات میں تحقیقاتی کاموں کے لئے نصب ایک ہزار چوالیس سینیٹری فیوج مشینیں جو فعال تھیں اور ان میں گیس بھرنے کا کام انجام نہیں پا رہا تھا ، بدھ چھ نومبر کو صدر مملکت حسن روحانی کے حکم سے فردو کی ایٹمی تنصیبات میں نصب ان ایک ہزار چوالیس سینیٹری فیوج مشینوں میں گیس بھرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کی تمام ایٹمی سرگرمیاں آئی اے ای اے کی نگرانی میں انجام پائیں گی اور پابندیوں کے خاتمے کی صورت میں چوتھے مرحلے سے واپسی کا امکان بدستور موجود رہے گا۔
دوسرے یہ کہ چوتھے قدم پر عملدرآمد کے ساتھ ہی فردو ایٹمی تنصیبات میں یورینیئم کی افزودگی کی سطح پانچ فیصد پہنچ گئی ہے البتہ ایران ، بیس فیصد یورینئم افزودہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن فی الحال اس پر عملدرآمد کی ضرورت نہیں ہے-
اسی سلسلے میں ایران کے محکمہ ایٹمی توانائی کے سربراہ ڈاکٹرعلی اکبر صالحی نے کہا ہے کہ ایران کے پاس تقریبا پانچ سو کلوگرام، چار اعشاریہ دو فیصد، افزودہ یورینیئم موجود ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ اس مقدار میں ہر روز پانچ ہزار گرام کا اضافہ ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران چوتھے قدم کے دائرے میں فردو ایٹمی تنصیبات میں پانچ فیصد یورینئم افزودہ کرے گا اور ضرورت پڑنے کی صورت میں ممکن ہے یورینئم کی افزودگی کی سطح بیس فیصد تک پہنچا دی جائے لیکن ابھی اس کی ضرورت نہیں ہے-
حکومت ایران ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد میں کمی کے چوتھے مرحلے پر قدم بہ قدم آگے بڑھ رہی ہے اور اگر یورپی ممالک ایٹمی معاہدے میں کئے گئے اپنے وعدوں پر عمل کریں گے تو چوتھا مرحلہ بھی گذشتہ تین مرحلوں کی طرح قابل واپسی ہوگا-
آٹھ مئی 2018 کو ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد، یورپی فریقوں نے بھی اپنے وعدوں پرعمل نہیں کیا ہے اور عملی طور پر ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد نہیں کیا ہے-
ڈاکٹر علی اکبر صالحی نے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے اور یورپی وعدہ خلافیوں کا سلسلہ جاری رہنے پر ، ایران کی جانب سے معاہدے پر عمل درآمد میں کمی کا سلسلہ جاری رکھنے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ جامع ایٹمی معاہدے کی شق نمبر چھبیس اور چھتیس کے مطابق ، مقابل فریقوں کی جانب سے اپنے فرائض اورمعاہدے پر عمل نہ ہونے کی صورت میں ایران کو یہ حق حاصل ہے کہ معاہدے کی بعض شقوں یا سب پر عمل درآمد کو معطل کردے۔
ایران کے محکمہ ایٹمی توانائی کے سربراہ نے ، ایران کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات کے بارے میں کہا کہ ان میں سے بعض اقدامات ایسے ہیں جن کی انجام دہی کے بعد واپسی ممکن ہے لیکن بعض اقدامات سے واپسی ممکن نہیں ہے۔ یاد رہے کہ ایران کے نطنز ایٹمی پلانٹ میں جدید اور پیشرفتہ آئی آر سکس سینیٹری فیوج مشینوں میں گیس بھرنے کا آغاز پھر سے شروع ہوگیا ہے۔
امریکہ کی اقتصادی دہشت گردی اور ایٹمی معاہدے میں یورپی فریقوں کی خلاف ورزیوں پر ایران کے ردعمل نے ثابت کردیا ہے کہ ایران کا جواب مختلف ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کی حداکثر دباؤ کی پالیسی، نہ ہی ایران کی اقتصادی و سیاسی شعبے پر اثرانداز ہوسکی ہے اور نہ ہی ایران کی پرامن ایٹمی ٹکنالوجی کی ترقی و توسیع میں کوئی خلل یا رکاوٹ پیدا کرسکی ہے- اور ایران کے نطنز ایٹمی پلانٹ میں جدید اور پیشرفتہ آئی آر سکس سینیٹری فیوج مشینوں میں گیس بھرنے کا عمل دوبارہ شروع کیا جانا، امریکہ کے حداکثر دباؤ کی پالیسی کی ناکامی کی علامت ہے-
ایسے حالات میں ایٹمی معاہدے کے تین یورپی فریق ملکوں کے سامنے واحد راستہ یہ ہے کہ وہ ایٹمی معاہدے پر عمل کریں- کیوں کہ ایسے معاہدے کی بقا کی ضمانت یورپی ملکوں کی جانب سے کئے گئے وعدوں پر عملدرآمد میں مضمر ہے- ورنہ پھر اس معاہدے کے تعلق سے جو بھی صورتحال پیش آئے گی اس کا قصوروار پہلے مرحلے میں امریکہ اور پھر یورپی ممالک ہوں گے اور یہی ممالک ایٹمی معاہدے میں کوتاہی اور اس کے خطرے میں پڑنے کے لئے بھی جواب دہ ہوں گے-